جمہوری اور لبرل اقدار کے فروغ میں امریکہ کا کردار عالمی سطح پر قائدانہ ہے لیکن اگر اس ملک میں ہی شخصی و مذہبی آزادیوں پر پابندیاں لگ گئیں تو اس کے عالمی سطح پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اشتہار
امریکہ میں اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کیے جانے کے بعد ملکی سپریم کورٹ کچھ مزید متنازعہ کیسوں کی سماعت کرنے والی ہے۔ دنیا بھر کی نظریں اس وقت امریکی نظام انصاف پر مرکوز ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے سرکاری طور پر بتا دیا ہے کہ گرمیوں کے وقفے کے بعد ملکی سپریم کورٹ کی آئندہ ٹرم تین اکتوبر سے شروع ہو گی۔
اس دوران سپریم کورٹ کے نو ججوں نے اسقاط حمل سے متعلق ایک اہم قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ تحفظ ماحول کی ایک اہم ایجسنی پر پابندی لگائی۔ ایک اور اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے امریکی ریاستوں کو پابند بنا دیا کہ وہ ایسی سخت قانونی سازی نہیں کر سکتی ہیں، جس کے تحت لوگوں کو کھلے عام ہینڈ گن لے کر پھرنے سے روکا جا سکے۔
ان فیصلوں سے امریکہ میں کئی حلقے چراغ پا ہیں اور وہ عوامی مظاہرے بھی کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے امریکی معاشرے کو طویل المدتی بنیادوں پر بدل دیں گے، جس کے عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ کے چھ جج قدامت پسند ہیں جبکہ صرف تین لبرل ہیں۔
سمر بریک کے بعد امریکی سپریم کورٹ الیکشن قوانین کے علاوہ تعلیمی مواقع میں نسلی تعصب، آزادی رائے اور امتیازی رویوں کے خاتمے کے حوالے سے کچھ مقدمات کی سماعت کرے گی۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
الیکشن قوانین
سپریم کورٹ نے الیکشن کی کارروائیوں سے متعلق امریکی ریاستوں کی اتھارٹی پر دو مقدمات کی سماعت کرنا ہے۔ Merrill v. Milligan نامی ایک کیس میں یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ آیا الاباما ریاست کے سات الیکٹورل ڈسٹرکٹس کی ری اسٹریکچنگ (نئی حلقہ بندی) ووٹنگ رائٹس ایکٹ کے خلاف ہے؟
اگر سپریم کورٹ ری پبلکن قانون سازوں کی طرف سے دائر کردہ اس درخواست کے حق میں فیصلہ سناتی ہے تو اس ریاست کے زیادہ تر افریقی نژاد امریکی ووٹرز ایک ہی ڈسٹرکٹ میں آ جائیں گے۔
اگرچہ اس ریاست میں سیاہ فام ووٹرز کی تعداد مجموعی آبادی کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہے لیکن اگر سپریم کورٹ نے ری پبلکن کے حق میں فیصلہ سنا دیا تو زیادہ تر سیاہ فاموں کا ووٹ الاباما میں ایوان نمائندگان کی سات نشستوں میں سے صرف ایک نشست تک ہی محدود ہو جائے گا۔ روایتی طور پر اس ریاست میں افریقی نژاد امریکی ڈیموکریٹس کے حق میں ہیں۔
الیکشن قوانین سے متعلق Merrill v. Milligan نامی کیس میں سپریم کورٹ نے نارتھ کیرولائنا میں الیکٹورل ڈسٹرکٹ قواعد کے جائز یا ناجائز ہونے پر بھی فیصلہ سنانا ہے۔ ریاستی عدالت اس قانون کو غیر آئنی قرار دے چکی ہے جبکہ قدامت پسند ری پبلکن پارٹی کا کہنا ہے کہ نارتھ کیرولائنا کی عدالت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ فیصلہ سنائے۔
اگر سپریم کورٹ نے ری پبلکن پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا تو اس ریاست میں الیکشن معاملات پر کسی تنازعے کی صورت میں ریاستی عدالتوں کے اختیارات ختم ہو جائیں گے۔
اشتہار
تعلیمی مواقع میں نسلی تعصب
امریکی معاشرے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے تقریبا تمام سطحوں پر ہی نسل پرستی ایک سنگین معاملہ قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں میں بھی اس مسئلے کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ الزام ہے کہ تعلیمی ادارے 'نان وائٹ‘ اسٹوڈنٹس کی ایک مخصوص تعداد کو ہی داخلہ دیتے ہیں جبکہ 'سفید فاموں‘ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس حوالے سے بھی دو مقدمات کی سماعت کرنا ہے، جو ‘سٹوڈنٹس فار فئیر ایڈمیشن‘ نامی ایک این جی او نے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ' ہارورڈ یونیورسٹی‘ اور پبلک جامعہ 'یونیوسٹی آف نارتھ کیرولائنا‘ کے خلاف دائر کر رکھے ہیں۔ اس این جی او کا اصرار ہے کہ تعلیمی مواقع میں نسلی امتیاز کی کوئی جگہ نہیں ہونا چاہیے۔
تعلیمی اداروں میں داخلے کے دوران نسلی تعصب سے نمٹنے کے اقدام کو ' اثباتی عمل (Affirmative action)‘ کہا جاتا ہے۔
آزادی رائے اور امتیازی سلوک کو روکنے کے قوانین
ایک مقدمے کے تحت امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانا ہے کہ آیا کسی بزنس کا مالک کچھ کسٹمرز کو ان کے ذاتی عقائد کی وجہ سے انکار کر سکتا ہے؟ 303 کریئٹیوِ ایل ایل سی نامی ویب سائٹ بنانے والی کمپنی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو خدمات فراہم نہیں کرتی۔
ریاست کولوراڈو کی لوئر کورٹس فیصلہ سنا چکی ہیں کہ ہم جنس پسندوں کو خدمات فراہم نہ کرنا امتیازی سلوک کے خاتمے کی خاطر بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اگر سپریم کورٹ کولوراڈو کی عدالتوں کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتی ہے تو مذہبی عقائد کی بنیاد پر صارفین کا انکار کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔