امریکی سپر بول کا فائنل: رنگا رنگ تقریب میں کنساس سٹی کی جیت
3 فروری 2020
امریکی فٹ بال لیگ کا فائنل میچ کنساس سٹی چیفس نے جیت لیا۔ اس فائنل میچ میں سان فرانسسکو کی ٹیم کو شکست کا سامنا رہا۔ فائنل میچ کے موقع پر رنگا رنگا تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
اشتہار
کنساس سٹی چیفس کو سپر بول جیتنے کے لیے پچاس برس انتظار کرنا پڑا۔ اتنے طویل انتظار کے بعد اُس نے امریکی نیشنل فٹ بال لیگ کی ایک مضبوط ٹیم سان فرانسسکو فورٹی نائنر کو ہرایا۔ اس کامیابی کو حیران کن اور شاندار قرار دیا گیا ہے۔
سپر بول کے فائنل میچ سے قبل منعقدہ تقریب میں مشہور گلوکاراؤں جینیفر لوپیز اور شکیرا نے ہزاروں شائقین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے انہیں محظوظ کیا۔ اس تقریب میں لاس اینجلس کے مشہور باسکٹ بالر کوبی برائنٹ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ برائنٹ حال ہی میں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں اپنی تیرہ سال بیٹی کے ساتھ ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکی نیشنل فٹ بال لیگ کا فائنل میچ سپر بول کہلاتا ہے اور سن 2019-20 کے سیزن کا میچ میامی شہر میں کھیلا گیا۔ لاطینی امریکی رنگ پیدا کرنے کے لیے میامی شہر کا انتخاب اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ سارے امریکا میں اسی شہر میں سب سے بڑی لاطینی امریکی کمیونٹی بستی ہے۔ اسی تناظر میں کولمبیا کی گلوکارہ شکیرا اور لاطینی امریکی فنکارہ جینیفر لوپیز کو مدعو کیا گیا تھا۔
کنساس سٹی چیفس یہ میچ ہار رہے تھے کہ اس کے کھلاڑیوں نے سان فرانسسکو کی برتری ختم کی اور سبقت لے کر کامیابی حاصل کی۔ امریکا میں جوئے کی ملکی تنظیم کے مطابق سپر بول پر رواں برس 6.8 بلین ڈالر کا جوا لگایا گیا۔ چھبیس ملین (دو کروڑ ساٹھ لاکھ) سے زائد افراد اِس جوئے میں شریک تھے۔
فائنل میچ میں کنساس سٹی چیفس کے کھلاڑی پیٹرک میہموز نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پانچ منٹ میں تین مرتبہ اسکور کر کے اپنی ٹیم کی ہمت بڑھائی اور انجام کار دس اسکور پیچھے ہونے کے باوجود فتح کی ٹرافی اٹھا لی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ میموز صرف اپنی ٹیم کا ہی نہیں بلکہ نیشنل فٹ بال لیگ کا اثاثہ بن گئے ہیں اور وہ مستقبل کے ایک بہترین کھلاڑی کے طور پر ابھرے ہیں۔
ع ح ⁄ ع ا (روئٹرز، اے پی)
بلے بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے گیند باز
کرکٹ کی دنیا میں سن 1990 کے دہائی سے لے کر اب تک سینکڑوں گیند بازوں نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ تاہم ان میں چند ہی ایسے باؤلر تھے جو حریف بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
وسیم اکرم (1984 تا 2003)
چھوٹے رن اپ کے ساتھ بائیں بازو سے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کرنے والے وسیم اکرم کو خطرناک ترین باؤلرز میں سرفہرست کہنا غلط نہ ہو گا۔ دو دہائیوں پر مبنی اپنے کیریئر میں انہوں نے انتہائی ماہر بلے بازوں کے ناک میں بھی دم کیے رکھا۔ وسیم ایک روزہ میچوں میں پانچ سو وکٹیں لینے والے واحد تیز گیند باز ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 414 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tallis
وقار یونس (1989 تا 2003)
وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی بھی خطرناک ترین باؤلرز میں شمار کی جاتی تھی۔ وقار یونس وکٹوں کی دوڑ میں وسیم اکرم سے پیچھے رہے۔ ان کے تیز رفتار اِن کٹرز خاص طور پر دائیں بازوں سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کی وکٹیں اڑا دیا کرتے تھے۔ وقار یونس نے بین الاقوامی ٹیسٹ میچوں میں 373 اور ایک روز میچوں میں 416 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
کرٹلی ایمبروز (1988 تا 2000)
سن نوے کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور کرٹنی واش کی جوڑی مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے میں شہرت رکھتی تھی۔ ایمبروز نے واش کے مقابلے میں وکٹیں تو کم حاصل کیں لیکن ان کا بلے بازوں پر دبدبہ کہیں زیادہ رہتا تھا۔ چھ فٹ سات انچ قد والے دراز قامت باؤلر کا شمار اپنے وقت کے خطرناک ترین گیند بازوں میں ہوتا تھا۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شین وارن (1992 تا 2007)
آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بلے بازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے۔ شین وارن کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑی گیند کو سپن کرنے میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اپنے سامنے کھڑے بلے باز کے اعصاب پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بلے باز کے دماغ کو پڑھ لینے کی صلاحیت انہیں مزید خطرناک بنا دیتی تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 708 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: dapd
متھیا مرلی دھرن (1992 تا 2011)
سری لنکن اسپنر ٹیسٹ اور ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے صرف زیادہ وکٹیں ہی نہیں حاصل کیں، بلکہ بلے بازوں پر ان کا رعب بھی بہت تھا۔ دنیا کے ماہر ترین بلے باز بھی ان کی انوکھی آف اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے وقت چوکس ہو جاتے تھے۔ مرلی دھرن نے اپنے کیریئر کے دوران ٹیسٹ میچوں میں 800 اور ون ڈے میں 534 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
گلین میک گَرا (1993 تا 2007)
عالمی سطح پر تیز گیند بازی میں لائن اور لینتھ کے اعتبار سے میک گرا کا شاید ہی کوئی دوسرا باؤلر مقابلہ کر پائے۔ بلے بازوں کو باندھ کر رکھنے والے آسٹریلوی گیند باز نے ٹیسٹ میچوں میں 563 اور ون ڈے میچوں میں 381 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
انیل کمبلے (1990 تا 2008)
بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ایسے واحد باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ثقلین مشتاق (1995 تا 2004)
عالمی کرکٹ میں ون ڈے میچ کے آخری اوورز میں اسپن باؤلنگ کرانے اور ’دوسرا‘ متعارف کرانے والے پاکستان آف سپنر ثقلین مشتاق ہی ہیں۔ ثقلین 200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین گیند باز بھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شان پولک (1995 تا 2008)
جنوی افریقہ کے شان پولک نے کئی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ ان کی رفتار بہت تیز نہیں تھی لیکن عمدہ لائن اور لینتھ اور اس میں بھی ایک خاص تسلسل، ان کی کامیابی کا راز رہا۔ پولک نے ٹیسٹ میچوں میں 421 اور ون ڈے میں 393 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Imago Images/Colorsport
شعیب اختر (1998 تا 2011)
پاکستانی گیند باز شعیب اختر کی انتہائی تیز رفتار باؤلنگ نے انہیں ایک انتہائی خطرناک باؤلر بنایا۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز اور یارکرز ان کے سامنے کھڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتے تھے۔ شعیب اختر کا سامنا کرتے وقت ساروو گنگولی، برائن لارا اور گیری کرسٹن جیسے بلے باز بھی پریشان دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kodikara
لاسیت ملنگا (2004 سے اب تک)
سری لنکا کے تیز گیند باز لاسیت ملنگا نے اپنے کیریئر کے شروع ہی میں منفرد باؤلنگ ایکشن اور تیز رفتار یارکرز کے ساتھ بلے بازوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ ملنگا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن ان کی رفتار کچھ کم پڑ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر وکٹیں سن 2007 اور سن 2014 کے درمیان حاصل کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA-Wire/S. Cooper
جسپرت بمرا (2016 سے اب تک)
بھارتی گیند باز جسپرت بمرا گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک خطرناک باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔ گیند کی رفتار میں غیر معمولی انداز میں تغیر اور انتہائی درست یارکرز کے باعث بمرا خاص طور ڈیتھ اوورز میں انتہائی خطرناک باؤلر ہیں۔ بمرا 60 ون ڈے میچوں میں سو وکٹیں اور درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں بھی 60 سے زائد وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔