1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستامریکہ

امریکی سیاسی رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں کی تاریخ

15 جولائی 2024

صدور سمیت سیاسی رہنماؤں پر حملے امریکی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ حملے پالیسی میں تبدیلی کی خواہش سے لے کر ہالی ووڈ کی ایک اداکارہ کی توجہ حاصل کرنے تک بے شمار وجوہات کی بنا پر کیے گئے۔

صدارتی امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
صدارتی امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپتصویر: Brendan McDermid/REUTERS

کل 13 جولائی کو امریکی ریاست پینسلوینیا میں صدارتی امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے جب اچانک فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی۔ امریکی تحقیقاتی ایجنسی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے مطابق اس واقعے کو رپبلکن پارٹی کے امیدوار ٹرمپ پر ایک "قاتلانہ حملے" کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تاہم اس واقعے میں ٹرمپ معمولی زخمی ہوئے اور ایک گولی ان کے دائیں کان کو چھو کر گزر گئی۔

13 جولائی کو امریکی ریاست پینسلوینیا میں صدارتی امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے جب اچانک فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھیتصویر: REUTERS

اس حملے کے فوراً بعد ہی امریکی سیکرٹ سروس اہلکاروں نے حملہ آور کو جوابی کارروائی میں ہلاک کر دیا۔ ایف بی آئی نے اس حملہ آور کی شناخت 20 سالہ میتھیو کروکس کے طور پر کی ہے۔

اس واقعے نے امریکی تاریخ میں سیاسی رہنماؤں پر ہونے والے حملوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔

 1981: رونلڈ ریگن  

سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن تصویر: Michael Evans/The White House/Getty Images

ایسا ہی ایک واقعہ 1981ء میں پیش آیا تھا، جب ہنکلی جونیئر نامی ایک شخص نے واشنگٹن کے ہلٹن ہوٹل میں تب کے امریکی صدر رونلڈ ریگن کی گاڑی پر گولی چلائی تھی۔ اس حملے میں گولی رونلڈ ریگن کی ایک پسلی کو چھو کر نکل گئی تھی، جس کے بعد انہیں دو ہفتے اسپتال میں رہنا پڑا تھا۔ 

اس وقت ہنکلی کی عمر 25 سال تھی اور وہ نفسیاتی مرض سائیکوسس کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا رونلڈ ریگن پر حملہ کر کہ وہ امریکی اداکارہ جوڈی فاسٹر کی توجہ حاصل کر پائیں گے۔

سن 1982 میں عدالتی کارروائی کے دوران ان کے نفسیاتی مرض کی بنا بر انہیں اس کیس میں قصوروار نہیں پایا گیا اور ان کا علاج کرانے کا حکم دیا گیا۔ سن 2022 میں ہنکلی کی طبی نگرانی ختم کر دی گئی تھی اور اب وہ مصوری اور گلوکاری میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

1975: جیرالڈ فورڈ

جیرلڈ فورڈتصویر: Bildagentur-online/picture alliance

سن 1975 میں سترہ دن کے مختصر عرصے میں دو خواتین نے تب کے امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کو مارنے کی کوشش کی تھی۔

پہلی کوشش لینیٹ فروم نامی ایک خاتون نے کی تھی، جن کا تعلق بدنام زمانہ چارلس میسن خاندان سے تھا۔ پانچ ستمبر 1975ء کو لینیٹ فروم نے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سیکرامینٹو میں جیرالڈ فورڈ پر بندوق تان لی تھی لیکن امریکی سیکرٹ سروس کے اہلکاروں نے انہوں فوراً ہی قابو کر لیا تھا اور وہ اپنی کوشش میں نہیں ہو پائی تھیں۔

سن 2009 میں  لینیٹ فروم کو جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

جیرالڈ فورڈ پر دوسرا حملہ سارا جین مور نامی ایک خاتون کی جانب سے 22 ستمبر 1975 کو سان فرانسسکو میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے بھی فورڈ پر گولی چلانے کی کوشش کی تھی اور وہ فورڈ کو مار کر امریکہ میں ایک انقلاب لانے کی خواہاں تھیں۔ تاہم وہ اس کوشش میں ناکام رہی تھیں۔ 

سارا جین مور 32 سال جیل میں گزار کر 77 سال کی عمر میں جیل سے رہا ہوئیں۔

1972: جارج ویلس

جارج والستصویر: Everett Collection/picture alliance

جارج ویلس امریکی ریاست الاباما کے گورنر تھے، جنہیں ایک انتخابی مہم کے دوران میری لینڈ کے ایک شاپنگ مال میں آرتھر بریمر نامی شخص نے پانچ گولیاں ماری تھیں۔ اس حملے کے نتیجے میں ویلس کا نچلا دھر مفلوج ہو گیا تھا۔

 آرتھر بریمر نے اپنی ایک ڈائری میں جارج ویلس اور امریکی صدر رچرڈ نکسن کو قتل کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں لکھا تھا اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسا شہرت پانے کے لیے کرنا چاہتے تھے۔انہیں 2007ء میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

1968: رابرٹ کینیڈی

رابرٹ کینیڈیتصویر: JT Vintage/Glasshouse/ZUMA Press Wire/picture alliance

پانچ جون 1968 کو سرہن سرہن نامی شخص نے ڈیموکریٹک پارٹی کے رابرٹ کینیڈی کو لاس اینجیلس کے ایمبیسڈر ہوٹل میں تین گولیاں ماری تھیں، جو امریکی صدر کی دوڑ میں حصہ لینے کے خواہاں ان سیاسی رہنما کی ہلاکت کا باعث بنیں۔ اس واقعے میں مزید پانچ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

سرہن ایک فلسطینی تھے، جن کا کہنا تھا انہوں نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے پیش نظر اور رابرٹ کینیڈی کی اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے ان پر حملہ کیا۔ سترہ اپریل 1969ء کو سرہن کو مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم بعد میں اس سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

 1963: جان ایف کینیڈی

جان ایف کینیڈیتصویر: United Archives/picture alliance

بائیس نومبر 1963ء کو تب کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکی ریاست ٹیکساس میں گاڑی میں سفر کر رہے تھے جب لی ہاروی اوسوالڈ نامی شخص نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

کینیڈی کے قتل سے متعلق ہزاروں دستاویزات عام کر دی گئیں

پولیس کی جانب سے گرفتاری کے بعد بھی لی ہاروی اوسوالڈ مصر رہے تھے کہ وہ بے قصور ہیں اور انہیں صرف اس لیے حراست میں لیا گیا ہے کیونکہ وہ روس میں رہ چکے ہیں۔

جان ایف کینیڈی پر حملے کے دو روز بعد لی ہاروی اوسوالڈ کو پولیس ہید کوارٹرز سے جیل لے جایا جا رہا تھا جب جیک روبی نامی ایک شخص نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

 جان ایف کینیڈی چوتھے امریکی صدر تھے جنہیں قتل کیا گیا۔ ان کے علاوہ ابراہم لنکن، جیمز گارفیلڈ اور ولیم مک کنلی وہ تین امریکی صدر ہیں جنہیں قتل کیا گیا۔

(کیتھرین شیئر) م ا / ع ت

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ، امریکی سیاست میں تشدد کا اضافہ

02:35

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں