امریکی سینیٹ سعودی عرب کی فوجی امداد کے خاتمے کی خواہش مند
14 مارچ 2019
امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کے ساتھ جاری تعاون ختم کر دیا جائے۔ تاہم صدر ٹرمپ سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے ایسے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اشتہار
ڈیموکریٹک اور ریپبلکن ارکان کی طرف سے مشترکہ طور پر حمایت کردہ ایک قرارداد کے مطابق امریکا اب ریاض حکومت کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کی متنازعہ فوجی حمایت ختم کر دینا چاہتا ہے۔ اس قرارداد کی چون ارکان سینیٹ نے حمایت کی، جن میں سے سات اراکین کا تعلق صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے ہے۔ چھیالیس سینیٹرز نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں اس قرارداد کی منظوری ابھی باقی ہے۔ تاہم سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کی منظوری کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس قرارداد کو ویٹو کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
شہریوں کی حفاظت
اس ملک میں گزشتہ چار برسوں سے زائد عرصے سے حوثی باغی بین الاقوامی سطح پر حمایت یافتہ یمنی حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمنی حکومت کو سعودی عرب کے عسکری اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے، جو وہاں پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ریاض کی سُنی حکومت حوثی باغیوں کے پیچھے اپنے روایتی حریف ایران کا ہاتھ دیکھتی ہے۔ لیکن سعودی عرب کے عسکری اتحاد پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے فضائی حملوں کے دوران عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی نہیں بناتی۔
امریکا سعودی عسکری اتحاد کو خفیہ معلومات کے ساتھ ساتھ ان ٹھکانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے، جہاں بعد میں فضائی حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکی سینیٹ نے گزشتہ دسمبر میں بھی یمن میں سعودی حکومت کو فوجی امداد فراہم کرنے کی مخالفت کی تھی۔ تاہم اس وقت ایوان نمائندگان کی ووٹنگ سے پہلے ہی اس قرارداد کی مدتِ منظوری ختم ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب دوسری ایسی قرارداد منظور کی گئی ہے۔
خاشقجی قتل کے اثرات
اس قرارداد کی ایک وجہ سعودی عرب کے ساتھ واشنگٹن انتظامیہ کا متنازعہ رویہ بھی ہے۔ ترکی میں سعودی قونصلیٹ کے اندر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے متعدد اراکین واشنگٹن انتظامیہ کے طرز عمل سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر بھی عائد کیا جاتا ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاملے میں سعودی ولی عہد کا کُھل کر ساتھ دیا ہے، جس کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ کو اپنی ہی صفوں میں سے تنقید کا سامنا ہے۔
ا ا / ک م (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔