1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سینیٹ نے صدر ٹرمپ کو بری کر دیا

6 فروری 2020

امریکی سینیٹ نے منگل پانچ فروری کو مواخذے کی کارروائی میں رائے شماری کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دونوں الزامات سے بری کردیا۔

USA Amtsenthebungsverfahren | Abstimmung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Senate Television

امریکا کی تاریخ میں مواخذے کا سامنا کرنے والے تیسرے صدر ٹرمپ پر اختیارات کے غلط استعمال اور کانگریس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے دو الزامات تھے۔

رائے شماری میں سینیٹ کے ارکان نے اپنی اپنی پارٹی کے موقف کے مطابق ووٹنگ کی البتہ حکمران ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر مٹ رومنی نے اختیارات کے غلط استعمال کے الزام میں صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا۔

مواخذے کی کارروائی کے ذریعے امریکی صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے 100 رکنی سینیٹ میں دو تہائی ارکان کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت ایوان میں ڈیموکریٹس کے 47 اور ریپبلیکن کے 53 ارکان ہیں۔

مواخذے کی کارروائی پر مختلف ارکان کی تقاریر کے بعد صدر ٹرمپ پر عائد دونوں الزامات پر الگ الگ رائے شماری ہوئی جس میں امریکی سینیٹ کے تمام 100 ارکان نے حصہ لیا۔ اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کو 48 کے مقابلے میں 52 ارکان نے مسترد کیا، جب کہ کانگریس کی راہ میں رکاوٹ کے الزام کو 53 کے مقابلے میں 47 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔

عرب لیگ نے ٹرمپ کا اسرائیل فلسطین امن منصوبہ مسترد کر دیا

حکمران ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر مٹ رومنی نے اختیارات کے غلط استعمال کے معاملے پر صدر ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا۔ انہوں نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ہی ووٹ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا صدر ٹرمپ نے عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچایا ہے، جو انتہائی غلط کام ہے۔

صدر ٹرمپ خود پر عائد کردہ الزامات سے انکار کرتے رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan

صدر ٹرمپ نے مٹ رومنی کے اقدام پر سخت نکتہ چینی کی۔ خیال رہے کہ رومنی سن 2012 کے صدارتی الیکشن میں باراک اوباما کے خلاف امیدوار تھے۔

صدر ٹرمپ نے مواخذے میں اپنی کامیابی کے بعد ہفت روزہ جریدہ ٹائم میگزین کا ایک جعلی سرورق ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہیں ہمیشہ کے لیے امریکا کا صدر قرار دیا گیا ہے۔

منگل کی رات اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں صدر ٹرمپ نے مواخذے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس عمل کو اب تک ’خام خیالی‘ قرار دیا ہے اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے یوکرائن کے صدر سے اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف بدعنوانی کے الزام کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔ بائیڈن کا بیٹا یوکرائن کے توانائی کے ادارے میں ملازم تھا۔ دباؤ ڈالنے کے لیے صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر یوکرائن کے لیے 391 ملین ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی، لیکن بعد میں اسے بحال کردیا تھا۔ بائیڈن خاندان کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کا دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

ٹرمپ کے لیے  مواخذے سے بچنے کی راہ ہموار

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ مواخذے کی کارروائی میں اپنی کامیابی کا آئندہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے بھرپور استعمال کریں گے۔

صدر ٹرمپ امریکا کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں ایسے تیسرے صدر ہیں جن کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی۔ اس سے قبل سن 1868 میں اینڈریو جانسن اور سن 1998 میں بل کلنٹن کے خلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی تھی تاہم اب تک کسی بھی صدر کو مواخذے کے ذریعہ برطرف نہیں کیا جاسکا۔ سن 1974میں رچرڈ نکسن نے مواخذے سے پہلے ہی اپنے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا۔

ج ا/ش ح (اے پی، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں