امریکی شٹ ڈاؤن کا خطرہ ٹلنے پر دنیا بھر میں اظہار اطمینان
17 اکتوبر 2013گذشتہ رات اس حوالے سے ڈیڈ لائن ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل امریکی سینیٹ نے حکومتی قرضوں کی حد بڑھانے سے متعلق قانون اٹھارہ کے مقابلے میں 81 ووٹوں سے منظور کر لیا۔
اس فیصلے پر عالمی برادری نے اظہار اطمینان کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عالمی معیشعت کے استحکام کا باعث بنے گا۔ چینی وزارت دفاع کے ترجمان ہُوا چُن یِنگ نے اس حوالے سے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ امریکا دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے۔ درست انداز میں اس مسئلے کا حل نہ صرف امریکا کے اپنے مفاد میں ہے بلکہ عالمی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ ہم اس بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہیں۔‘‘
ایوان نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کے ترجمان جان بیہنر نے کہا:’’ہم نے ایک اچھی جنگ لڑی ہے لیکن ہم اسے جیت نہیں پائے ہیں۔‘‘خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سینیٹ سے منظوری کے فوری بعد یہ مسودہ قانون وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر باراک اوباما کے سامنے پیش کیا گیا، جنہوں نے فوری طور پر اس پر دستخط کر دیے۔
سینیٹ میں اکثریتی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد ایوان ہیری رِیڈ کے مطابق اس سارے معاملے میں جیت جمہوریت کی ہوئی ہے:’’آج ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے حکومت کو پھر سے کام کرنے کے قابل بنانے اور امریکا کو دیوالیہ ہو جانے سے بچانے کے لیے کانگریس میں پارٹیوں کی سطح سے بالا تر ایک تاریخی اتفاق رائے عمل میں آیا ہے۔‘‘
منظور شدہ قانون کے تحت وفاقی حکومت کی قرض لینے کی حد سات فروری تک جبکہ حکومت کا خرچ چلانے کی مہلت 15 جنوری تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس کے بعد وہاں حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ایک غیر جانبدار ماہر اقتصادیات مارک گولڈ وائن کے مطابق ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں میں سے کوئی بھی درست نہیں کہہ رہا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’کمیٹی برائے ذمے دارانہ بجٹ‘ سے وابستہ گولڈ وائن کے مطابق: ’’اس معاملے میں کسی کی بھی جیت نہیں ہوئی، ہاں بہت سے لوگوں کی ہار ضرور ہوئی ہے۔ بہرحال شکر ہے کہ ہم نے حکومت کو پھر سے کام کرنے کے قابل بنانے کا ر استہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس سے ہماری معیشت کو یقیناً استحکام ملے گا۔‘‘
واضح رہے کہ يہ اتفاق رائے مقامی وقت کے مطابق سترہ اکتوبر کی ڈيڈ لائن سے کچھ ہی گھنٹے قبل عمل میں آیا۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو سترہ اکتوبر سے ملکی وزارت خزانہ ديواليہ پن کی جانب بڑھ رہی تھی اور وہ اپنے ذمے رياستی بلوں کی ادائيگياں نہ کر پاتی۔