امریکی صدارتی انتخابات:بائیڈن اور ٹرمپ میں مقابلہ تقریباً طے
6 مارچ 2024
امریکی صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ملک بھر میں ریاستی نامزدگیوں کے مقابلوں میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اب نومبر میں صدارتی انتخابات میں دونوں کا ایک دوسرے سے حتمی مقابلہ تقریباً طے ہے۔
اشتہار
منگل یعنی 'سپر ٹیوزڈے' کے روز ہونے والے ریاستی انتخابات کے نتائج واضح ہو گئے ہیں اور دونوں رہنماوں یعنی جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے نامزدگیوں میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا امکان قوی تر ہوگیا ہے کہ نومبر میں دونوں حریف ایک بار پھر ایک دوسرے کے مقابل ہوسکتے ہیں۔
ریاستی انتخابات کے نتائج کے بعد دونوں رہنماوں نے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے جو بائیڈ ن کو تاریخ کا "بدترین صدر" قرار دیا جب کہ بائیڈن نے ٹرمپ کو "امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ" قرار دیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر نکی ہیلی کے لیے اب ری پبلیکن کی امیدواری سے پیچھے ہٹنے کے لیے دباو بڑھ گیا ہے، کیونکہ ٹرمپ نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنے اوپر عائد مجرمانہ الزامات کے باوجود مسلسل تیسری مرتبہ صدارتی نامزدگی حاصل کرلی۔ منگل رات گئے تک نتائج کے مطابق انہوں نے 13 ریاستوں میں فتوحات حاصل کیں۔
دوسری طرف بائیڈن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے 15 ریاستوں کے تمام پرائمری مقابلوں اور کاکسز میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان ریاستوں میں ورجینیا، ٹیکساس، مینیسوٹا اور کولوراڈوکی اہم ریاستیں بھی شامل ہیں۔
بائیڈن اور ٹرمپ کی ایک دوسرے کے خلاف بیانات
'سپر ٹیوزڈے' کے نتائج واضح ہونے کے ساتھ ہی صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دوسرے پر حملے شروع کردیے۔
اشتہار
فلوریڈا میں مار اے لاگو اسٹیٹ میں اپنی تقریر کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کی امیگریشن پالیسیوں پر تنقید کی اور انہیں تاریخ کا "بدترین صدر" قرار دیا۔
انہوں نے اپنے حامیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو پچھلے تین سالوں کے دوران بڑی پسپائی کا سامنا رہا کیونکہ بائیڈن نے معیشت اور امیگریشن سے نمٹنے میں غلطی کی۔
ٹرمپ نے، جو 2020 میں بائیڈن سے دوبارہ انتخاب ہار گئے تھے، منگل کو اپنی جیت کے دور کا جشن منایا اور نومبر کے انتخابات کو ملکی تاریخ کا اہم ترین دن قرار دیا۔
دوسری جانب ایک بیان میں جو بائیڈن نے ایک بار پھر ٹرمپ کو امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا، "آج رات کے نتائج کے بعد امریکی عوام کے پاس ایک واضح انتخاب ہے: کیا ہم آگے بڑھتے رہیں گے یا ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو اجازت دیں گے کہ وہ ہمیں دوبارہ افراتفری، تقسیم اور اندھیرے میں دھکیل دیں۔"
صدر بائیڈن نے نومبر پانچ کے انتخابات کے حوالے سے متنبہ کیا کہ ٹرمپ کے لیے ایک اور صدارتی مدت کا مطلب ''افراتفری، تقسیم اور تاریکی'' ہوگا۔
بائیڈن نے کہا، ''آج، ملک بھر میں لاکھوں ووٹروں نے اپنی آوازیں سنائی ہیں - یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمیں پیچھے کی طرف لے جانے کے انتہائی منصوبے کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔"
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔