1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستامریکہ

امریکی صدارتی انتخابات، واشنگٹن میں سخت ترین حفاظتی اقدامات

5 نومبر 2024

حکام کی جانب سے کیے گئے ان اقدامات کا مقصد چھ جنوری جیسے واقعات کا سد باب ہے، جن میں ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل پر ہلہ بول دیا تھا۔ ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس انتخابات کی رات دارالحکومت میں گزاریں گی۔

پینسلوانیا ایونیو پر واقع کاروباروں کو کسی بھی قسم کی تخریب کاری سے بچانے کے لیے محفوظ بنایا  جا رہا ہے
پینسلوانیا ایونیو پر واقع کاروباروں کو کسی بھی قسم کی تخریب کاری سے بچانے کے لیے محفوظ بنایا جا رہا ہےتصویر: Lenin Nolly/NurPhoto/picture alliance

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پانچ نومبر کو امریکی صدارتی انتخابات سے قبل سکوت چھایا رہا، جسے 'طوفان سے پہلے کی خاموشی‘ قرار دیا جارہا ہے۔ انتخابات سے ایک دن قبل یعنی چار نومبر بروز پیر واشنگٹن ڈی سی کی سڑکوں پر ٹریفک معمول سےکم رہی، جبکہ لوگوں کی چہل پہل میں بھی کمی دیکھی گئی۔

 منائے نامی ایک عمر رسیدہ اوبر ڈرائیور کا کہنا تھا ، ''شہر ُپرسکون ہے، بہت پُرسکون‘‘ وہ خوش نہیں لگ رہے تھے، اور یہ جلد ہی واضح ہو گیا کہ کیوں ''میرا اندازہ ہے کہ ہر کوئی گھر سے الیکشن دیکھ رہا ہے‘‘ انہوں نے شکایت کی کہ اوبر ڈرائیوروں کے لیے بہت زیادہ کام بھی نہیں ہوگا۔

چھ جنوری دو ہزار اکیس کو کانگریس کی جانب سے جو بائیڈن کی بطور صدر تصدیق کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر ہلہ بول دیا تھاتصویر: John Minchillo/AP/picture alliance

پنسلوانیا ایونیو پر واقع وائٹ ہاؤس کے ارد گرد کچھ عمارتوں نے جمعہ کے روز سے ہی حفاظتی تیاریاں شروع کر دی تھیں، وائٹ ہاؤس کو جانے والی گلی میں واقع عمارتوں کے سامنے مصنوعی لکڑی کے تختے لگا کر  انہیں محفوظ بنایا گیا۔ یہاں واقع دفتری عمارتوں کے ساتھ ساتھ ریستوراں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی حفاظتی باڑ کے ساتھ ساتھ چلنے والی ایک نوجوان خاتون نے کہا، ''یقینی طور پر ہمیشہ ڈی سی کے ارد گرد رہنے والے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کیپیٹل میں فسادات جیسا کچھ دوبارہ ہو سکتا ہے اور یہ کہ یہاں پر پھر پر تشدد واقعات ہو سکتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر، مجھے لگتا ہے کہ لوگ ٹھیک رہیں گے۔‘‘

چھ جنوری جیسے واقعات کا سد باب 

پانچ نومبر کے انتخابات سے قبل واشنگٹن ہائی الرٹ پر ہے کیونکہ گزشتہ مرتبہ انتقال اقتدار  کے موقع پر ہونے والے پرتشدد واقعات کی یاد ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ چھ جنوری 2021 کو کانگریس کی جانب سے جو بائیڈن کی انتخابی فتح کی تصدیق کیے جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے مشتعل ہجوم نے امریکی کیپیٹل پر دھاوا بول دیا تھا۔

 اس سے نصف سال قبل مئی اور جون 2020 میں بلیک لائیوز میٹر کے احتجاج کے دوران واشنگٹن کے شہری علاقے میں سڑکوں کے کنارے قائم کئی کاروباروں کو نقصان پہنچا تھا۔

واشنگٹن میں حکام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی نا خوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیںتصویر: Joe Raedle/Getty Images

شہر کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ مقامی اور وفاقی ایجنسیوں نے عہد کیا ہے کہ وہ اس بار غیر محتاط نہیں رہیں گے  اور انتخابی ہفتے اور اس کے بعد سب مقامات اور لوگوں کو محفوظ رکھیں گے۔ پولیس چیف پامیلا اے سمتھ نے کہا کہ تمام اہل 3,300 ڈی سی پولیس افسران 12 گھنٹے کی شفٹوں میں کام کریں گے اور ''اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہمارے پاس سڑکوں پر اور شہرکے ہر کونے میں کافی افسران موجود ہیں۔‘‘

 ڈی سی کونسل کے ایک ڈیموکریٹک رکن بروک پنٹو نے بھی کہا کہ سکیورٹی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ پنٹو نے واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ شیئر کیے گئے ایک بیان میں کہا، ''ڈی سی حکومت میں ہم نے الیکشن اور نئے صدر کی افتتاحی تقریب کے دوران ڈی سی کے رہائشیوں اور مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی شراکت داروں کے ساتھ ملک کر  مربوط اقدامات کیے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،  ''تشدد یا تباہی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

کملا ہیرس انتخابی نتائج کے وقت واشنگٹن ڈی سی میں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ مارا لاگو فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر ہوں گےتصویر: Charly Triballeau und Angela Weiss/AFP

ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور موجودہ نائب صدرکملا ہیرس دراصل پانچ نومبر کو واشنگٹن میں ہوں گی۔ ان کی الیکشن نائٹ پارٹی ان کی درس گاہ ہاورڈ یونیورسٹی میں ہوگی۔ یونیورسٹی کے پڑوس میں، کارکنوں نے دھاتی باڑ لگا رکھی ہے، اور پولیس کی کاریں مستقل طور پر یہاں موجود ہیں۔

بارز اور ریستوراں بند ہیں، اور کیمپس میں زیادہ لوگ نہیں ہیں کیونکہ چار اور پانچ نومبر کے لیے کلاسوں کو آن لائن منتقل کر دیا گیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ  انتخابی رات ویسٹ پام بیچ، فلوریڈا میں اپنی رہائش گا پر گزاریں گے۔

کارلا بلائیکر (ش ر ⁄ ر ب)

کملا ہیرس یا ٹرمپ: دنیا کی معیشت کے لیے بہتر کون؟

16:27

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں