امریکی صدارتی طریقہ انتخاب
4 نومبر 2008آج ، منگل کے روز امریکہ میں اگلے چار سال کی مدت کے لئے نئے صدر کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ امریکہ بھر میں انتخابات کے لئے سرکاری عمارتوں، ڈاک خانوں اور تعلیمی اداروں کو پولنگ اسٹیشنز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
رائج صدارتی انتخابی طریقہ کار کچھ پیچیدہ بھی ہے اور دلچسپ بھی۔
امریکہ کی ہرریاست میں کم از کم تین الیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بڑی ریاستوں میں الیکٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جیتنے والے صدارتی امیدوارکو حتمی کامیابی کے لئے الیکٹورل کولج کے کم از کم دو سو ستر ارکان کے ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ ریاست کیلی فورنیا سب سے بڑی ریاست ہے جہاں کے الیکٹورل ووٹس پچپن ہیں، اس کے بعد ٹیکساس کا نمبر آتا ہے جہاں چونتیس الیکٹورل ووٹ ہیں۔ اگر دونوں صدارتی امیدواروں کو دو سو انہتر ووٹ حاصل ہوں تو امریکی صدر کا فیصلہ ایوان نمائندگان کرتا ہے۔
انتخابی نظام کی پیچیدگی کے باعث عوامی حمایت کے باوجود کوئی امیدوار یہ انتخابات ہاربھی سکتا ہے۔ جس طرح سن دو ہزار کے انتخابات میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوارایل گور ریاست فلوریڈا سے ہار گئے کیونکہ فلوریڈا کے الیکٹورل کالج کے پچیس ووٹ ریپبلکن امیدوار جارج بش کے حق میں چلے گئے تھے۔ امریکہ کی گیارہ بڑی ریاستیں ایسی ہیں جن کے مجموعی الیکٹورل ووٹوں کی تعداد دو سو چھیتررہے یعنی ایک صدارتی امیدوارگیارہ ریاستوں سے دو سو چھیتر الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے بھی انتالیس ریاستوں کے نتائج پر برتری حاصل کرسکتا ہے۔ باراک اوباما ان گیارہ میں سے چھ ریاستوں میں جان مککین سے آگے ہیں اورعوامی انتخابی مقبولیت کے حوالے سے انہیں گیارہ پوائنٹ کی برتری بھی حاصل ہے۔