امریکی صدر بننے پر جو بائیڈن کو عالمی رہنماوں کی مبارک باد
21 جنوری 2021
دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو امید ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن عالمی امور سے نمٹنے، پابندیاں ہٹانے اور دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے میں تعاون کریں گے۔
اشتہار
دنیا بھر کے رہنماؤں نے بدھ کے روز جو بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں مبارک باد پیش کی۔قبل ازیں کیپیٹل ہل کے احاطے میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں جو بائیڈن نے امریکا کے 46ویں صدر کے طور پر حلف لیا اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا خاتمہ ہو گیا، جنہوں نے عالمی سطح پر کثیر الجہتی تعاون کو بڑی حد تک ختم کر کے رکھ دیا تھا۔
عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد نئے صدر نے متعدد اہم احکامات پر دستخط کیے جس میں ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں امریکا کی دوبارہ شمولیت جیسے اہم اقدام شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ان معاہدوں سے امریکا کو الگ کر لیا تھا۔ نئی انتظامیہ نے ٹرمپ کی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کو بدلنے سے متعلق تیزی سے فیصلے کرنے کی بات کہی تھی۔
دنیا کے تقریباً سبھی بڑے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ماحولیات اور کورونا وائرس کی وبا سمیت دیگر بین الاقوامی امور سے نمٹنے میں نئی امریکی انتظامیہ سے تعاون کے منتظر ہیں۔ کئی رہنماؤں نے امریکا کے ساتھ تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز کی امید کے ساتھ بائیڈن سے ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کو ہٹانے کی اپیل بھی کی ہے۔
یورپ کا دوست
یورپی کونسل کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے صدر بائیڈن کو مباردک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کے پاس واشنگٹن میں ایک دوست ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''اس بار امریکی کیپیٹل ہل کی سیڑھیوں پر حلف برداری کی تقریب امریکی جمہوریت کی مضبوطی کا مظہر ہوگی۔''
جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے بائیڈن کی حلف برداری تقریب کو ''امریکی جمہوریت کے لیے اچھے دن'' سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر عالمی امور کو حل کرنے کے منتظر ہیں۔
انہوں نے کہا، ''امریکی اداروں کی ساخت کی دھجیاں اڑانے کی تمام کوشش کے باوجود، انتخابی حکام، گورنرس، عدلیہ اور کانگریس نے ثابت کردیا کہ وہ مضوط ہیں۔''
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ کی روش سے انحراف کرتے ہوئے اب امریکا اپنی خاربہ پالیسی میں تبدیلی لائیگا۔ انہوں نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف سے بات چیت میں کہا، ''ہم نے گزشتہ چار برسوں کے دوران دیکھ لیا کہ امریکا فرسٹ کا مطلب کیا ہے: نہ تو کوئی ہم آہنگی اور نہ ہی کوئی صلاح و مشورہ۔''
پیرس معاہدے میں واپسی کا خیرمقدم
یورپیئن کمیشن نے ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے بائیڈن کے فیصلے کی ستائش کی ہے۔ کمیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ہم ماحولیات کی تبدیلی کے حوالے سے دوبارہ ایک ساتھ لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔''
فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا، ''پیرس معاہدے میں واپسی پر خیرمقدم ہے۔''
امریکی صدور کے پالتو جانوروں کی تاریخ
وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں امریکی صدور کے ہمراہ متجسس بلیوں سے لے کر اسکینڈل کا سبب بننے والے کتوں سمیت مختلف پالتو جانور رہ چکے ہیں۔ اس مرتبہ جو بائیڈن کے ساتھ بھی ان کے پالتو جانور جلد وائٹ ہاؤس منتقل ہوں گے۔
تصویر: Marcy Nighswander/dpa/picture alliance
جو بائیڈن کا جرمن شیپرڈ
بائیڈن کے جرمن شیپرڈ نسل کے کتے کی ٹانگ اس وقت ٹوٹ گئی جب نومنتخب صدر اس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے سے پہلے اب بائیڈن کو ایک بلی دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ پالتو بلی امریکا کے دوسرے صدر رتھرفورڈ ہائس لائے تھے۔
تصویر: Stephanie Carter/dpa/picture alliance
ٹرمپ کا کوئی ’فرسٹ پیٹ‘ نہیں تھا
گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایسے واحد صدر رہے جن کے پاس کوئی پالتو جانور نہیں تھا۔ باراک اوباما کے دو کتے ’بو اور سنی‘ وائٹ ہاؤس میں آخری پالتو جانور تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Souza
کلنٹن کی بلی ’ساکس‘
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی بلی ’ساکس‘ اور لیبراڈور کتا ان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں رہتے تھے۔ ساکس اوول آفس میں ایک مرتبہ بل کلنٹن کے کندھوں پر چڑھ کر کھیلتی بھی دیکھی گئی تھی۔
تصویر: Everett Collection/picture alliance
وائٹ ہاؤس کی ویڈیوز میں پالتو جانور
صدر جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں وائٹ ہاؤس میں تین کتے اور ایک بلی رہتی تھی۔ بش کے پالتو جانوروں میں سب سے مشہور بارنی اور مِس بیزلی تھے۔ یہ دونوں وائٹ ہاؤس کی کئی ویڈیو سیریز میں دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Jim Watson/AFP /Getty Images
اسکینڈل کا سبب بننے والا ’فرسٹ پیٹ‘
امریکا کے 32ویں صدر فرینکلن دی روزویلٹ کا کتا ’فالا‘ اب تک کا سب سے مشہور صدارتی پالتو جانور رہا ہے۔ سن 1944 میں روزویلٹ اپنے کتے فالا کو غلطی سے چھوڑ کر ایک جزیرے کی سیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور ایسی افواہ سامنے آئی کہ روزویلٹ نے ٹیکس دہنندگان کے پیسوں سے امریکی بحری جہاز کے ذریعے فالا کو اپنے پاس منگوا لیا۔ روزویلٹ اس الزام کی تردید کرتے تھے۔
تصویر: Richard Maschmeyer/picture alliance
کینیڈی کا پالتو گھوڑا
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی بیٹی کیرولین کو چھوٹی قد کی نسل کا ایک خوبصورت گھوڑا تحفہ دیا تھا۔ اس کا نام ماکارونی تھا۔ موسم سرما کے دوران وائٹ ہاؤس کے صحن میں کیرولین اور اس کے دوست ماکارونی پر گھڑ سواری کرتے تھے۔
تصویر: akg-images/picture alliance
پالتو جانور کھائے نہیں جاتے
وائٹ ہاؤس کا سب سے انوکھا پالتو جانور راکون ممالیہ تھا، جس کا نام ربیکا تھا۔ صدر کیلون کولج کو یہ راکون تھینکس گونگ کے روایتی پکوان میں استعمال کرنے کے لیے تحفہ دیا گیا تھا۔ لیکن جانور دوست صدر نے اس ممالیہ کو ایک پالتو جانور کے طور پر رکھ لیا۔
تصویر: gemeinfrei
کچھ پالتو جانور کاٹتے ہیں
سن 1820 میں سربراہان مملکت کے لیے غیر ملکی رہنماؤں سے نایاب جانوروں کا تحفہ ملنا معمول کی بات ہوتی تھی۔ صدر جان کوئنسی ایڈمز کو ایک فرانسیسی فوجی جنرل نے ایک مگر مچھ کا بچہ تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاں سن 1930 میں صدر ہیبرٹ ہوور کے بیٹے بھی وائٹ ہاؤس میں اپنے ساتھ دو پالتو مگر مچھ لائے تھے۔
تصویر: Rosemary Matthews/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے بھی جو بائیڈن اور کمالا ہیرس کی نئی انتظامیہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماحولیات اور کورونا وائرس جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گے۔
گیند امریکا کے پالے میں ہے: ایران
ایرانی صدر حسن روحانی نے جوہری معاہدے میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے حوالے سے کہا کہ گیند تو امریکا کے پالے میں ہے کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کر دے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''اگر امریکا سن 2015 کے جوہری معاہدے میں واپس ہوتا ہے تو ہم بھی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔''
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔
لاطینی امریکی ممالک میکسیکو اور برازیل کے سربراہان مملکت نے بھی جو بائیڈن کے صدر بننے پر مبارک باد پیش کی ہے اور معاشی ترقی جیسے امور پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
اشتہار
مشرق وسطی
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے جو بائیڈن کے ساتھ اپنی ذاتی دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات مزید مضبوط کرنے اور ایران کے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ امریکا اس خطے میں امن کے عمل کے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کریگا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک ایسے جامع اور انصاف پر مبنی امن عمل اپنانے کی ضرورت ہے جو فلسطینی عوام کی آزادی اور آزاد ریاست کی امنگوں پر کھرا اترتا ہو۔
جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تو محمود عباس نے ان پر اسرائیل کے تئیں جانبدارانہ رویہ اپنانے کا الزام عائد کیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا شمار سابق صدر ٹرمپ کے گہرے دوستوں میں ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے بھی بائیڈن کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے معاشی سطح پر آپسی تعاون کی مزید بہتر کرنے کی بات کہی ہے۔
جاپان کے وزیر اعظم یشوہیدے سوگا نے بائیڈن کی انتظامیہ کا یہ کہہ کر خیرمقدم کیا ہے کہ انہیں امید ہے امریکا اور جاپان کے درمیان معاشی تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔