امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء، چین اور شمالی کوریا سے امریکا کے تعلقات اور اپنے مستقبل کے سیاسی منصوبوں سمیت متعدد امور پر بات کی۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز وائٹ ہاوس میں باضابطہ پہلی پریس کانفرنس کے دوران کورونا وائرس کی وبا، بندوق پر کنٹرول، تارکین وطن اور امریکی معیشت کی تعمیرنو جیسے داخلی موضوعات پر بھی سوالوں کے جواب دیے۔
یکم مئی تک افغانستان سے انخلاء مشکل
جو بائیڈن نے کہا کہ مقررہ تاریخ تک افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں زیادہ عرصے تک رہنے کا ارادہ نہیں ہے لیکن ہم افغانستان کو محفوظ اور منظم انداز میں چھوڑنا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر نے کہا”امریکا افغانستان سے ضرور نکلے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہوسکے گا۔ یکم مئی کی مقررہ تاریخ تک افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء مشکل ہوگا۔"
بائیڈن کا کہنا تھا ”سوال یہ ہے کہ کیسے اور کن حالات میں ہم افغانستان سے نکلنے کے اس سمجھوتے کو پورا کرنے کے قابل ہوں گے جسے صدر ٹرمپ نے طے کیا تھا، اور جو بظاہر لگتا ہے کہ پورا کرنا مشکل ہے۔" تاہم انہوں نے کہا ”وہ آئندہ سال بھی امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی نہیں دیکھتے ہیں۔“
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے یورپ کا دورہ کیا ہے جس کے دوران انہوں نے ان امریکی اتحادیوں سے بات چیت کی، جن کی افغانستان میں افواج موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم افغانستان سے نکلتے ہیں تو ایسا ایک محفوظ اور منظم انداز میں کیا جائے گا۔
چین امریکا کو مات نہیں دے سکے گا
امریکی صدر نے چین کے حوالے سے سوالوں کا جواب دیتے کہا کہ چین کا دنیا کا سب سے دولت مند اور طاقت ور ملک بننے کا خواب ان کے دور میں پورا نہیں ہوگا۔
بائیڈن کا کہنا تھا ”وہ سائنس اور ریسرچ کے میدان میں امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ کر کے چین کے اثر کو روکنے کی کوشش کریں گے۔"
بائیڈن نے مزید کہا کہ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق چین کے ریکارڈ پر مسلسل سوال اٹھاتا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کا خاتمہ ان کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی درجے کی سفارت کاری کے لئے تیار ہیں، لیکن اس کا نتیجہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے الگ ہونے سے مشروط ہوگا۔
اشتہار
مستقبل کے ارادے
صدر نے مستقبل کے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا سن 2024 میں بھی وائٹ ہاوس کے لیے مقابلہ کرنے کا ان کا ارادہ ہے۔
انہوں نے کہا، ”میرا منصوبہ ہے کہ میں دوبارہ الیکشن لڑوں گا، یہ میری توقعات ہیں۔"
جب ایک نامہ نگار نے زور دے کر پوچھا کیا کیا وہ واقعتاً آئندہ بھی صدارتی الیکشن میں مقابلہ کریں گے تو امریکا کے سب سے عمر دراز صدر 78 سالہ بائیڈن نے کہا ”میں قسمت پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے ساڑھے چار برس یا ساڑھے تین برس پہلے یقین کے ساتھ کوئی منصوبہ کبھی نہیں بنا یا۔"
پہلی پریس کانفرنس میں تاخیر کا سبب
صدر بائیڈن، گزشتہ چار عشروں کے دوران، پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے اپنی صدارت کے ابتدائی سو دنوں کے دوران نیوز میڈیا کے ارکان کے ساتھ باضابطہ سوال و جواب کی کسی نشست کا سامنا نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بائیڈن چاہتے تھے کہ پہلی باضابطہ پریس کانفرنس سے قبل ریلیف پیکج منظور ہوجائے تاکہ وہ اپنی انتظامیہ کی ایک بڑی حصولیابی کو پیش کرسکیں۔
اپنے ابتدائی کلمات میں صدر بائیڈن نے اپنے ایک اعشاریہ نو ٹریلین ڈالر کے ریلیف پیکج کی کانگریس سے منظوری کا ذکر کیا، جس میں کروڑوں امریکیوں کو بھیجے جانے والا چودہ سو ڈالر کا امدادی چیک بھی شامل ہے۔
انہوں نے امریکہ میں پرانے انفرا سٹرکچر کی بحالی کے لئے تین ٹریلین ڈالر کی تجویز کا بھی ذکر کیا جس میں پرانی، سڑکوں، پلوں اور اس کے ساتھ، بقول ان کے، امریکی معیشت میں ماحول دوست تبدیلیوں کیلئے فنڈنگ شامل ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔