امریکی صدر کا کورونا کے نقطہ آغاز کی تفتیش کا مطالبہ
27 مئی 2021
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اب تک یہ حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ مہلک وائرس کسی جانور سے پھیلا تھا یا پھر کسی تجربہ گاہ سے باہر آیا۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کورونا وائرس کے نقطہ آغاز یا اس کے ماخذ کی گہرائی سے تفتیش کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس برادری کی اکثریت نے دو ممکنہ منظر ناموں کے آس پاس ہی ''مل کر'' کام کیا ہے۔ اس میں ایک یہ کہ یہ وائرس کسی متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے میں آنے سے انسانوں میں پھیلا یا پھر تجربہ گاہ میں حادثاتی طور پر پیدا ہوا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اس میں سے کو ن سی بات زیادہ درست ہے، ''اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہمارے پاس مناسب معلومات موجود نہیں ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ انٹیلی جنس اداروں میں سے دو کا رجحان اس بات کی جانب ہے کہ اس کا تعلق جانوروں سے ہے جبکہ ایک ایجنسی کا نظریہ تجربہ گاہ کی جانب ہے لیکن، ''دونوں کو ہی اپنی بات پر معتدل یا پھر کم درجے کا اعتماد ہے۔''
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں امریکا کی قومی تجربہ گاہوں کو تفتیش میں مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے چین سے بھی اس بین الاقوامی تفتیش میں تعاون کرنے کا اپیل کی اور امید ظاہر کی کہ آئندہ 90 دن کے اندر اس کے نتائج آ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں، ''امریکا پوری دنیا کے ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھے گا تاکہ چین پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ ایک مکمل، شفاف، شواہد پر مبنی بین الاقوامی تفتیش میں شامل ہو اور تمام متعلقہ اعداد و شمار اور شواہد تک رسائی بھی فراہم کرے۔''
گائے کا گوبر اور پیشاب کووڈ انیس کا علاج نہیں، طبی ماہرین
03:55
شکوک و شبہات کے بادل
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں شامل بعض افسران خود اس نظریے کے قائل نہیں ہیں اور ان میں تجربہ گاہ سے پھیلنے کی تھیوری پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کورونا وائرس سے متعلق مشیر ڈاکٹر انتھونی فاوچی نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اور ان کے بعض معاون سائنسدان اس بات پر، ''یقین رکھتے ہیں کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ وائرس قدرتی طور پر وجود میں آیا تاہم کسی کو بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ یہی سو فیصد درست ہے۔''
اشتہار
سینیٹ کی ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران ڈاکٹر فاوچی نے کہا، ''چونکہ اس حوالے سے بہت تشویش پائی جاتی ہے، بہت سی قیاس آرائیاں بھی ہیں اور چونکہ کسی کو بھی اس بات کا ٹھوس علم بھی نہیں ہے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس نوعیت کی تفتیش کی ضرورت ہے کہ جس میں کھلی شفافیت موجود ہو اور اس کی جانچ کے لیے وہ تمام معلومات مہیا کی جانی چاہیں جو پہلے ہی سے دستیاب ہیں۔''
وائرس سے متعلق بائیڈن کے ایک سینیئر مشیر اینڈی سلاوٹ نے منگل کے روز کہا تھا کہ اس بارے میں ہمیں چین سے شفاف عمل کی ضرورت ہے۔ ''ہمیں اس معاملے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی بھی مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ہمارے پاس اس وقت ایسا کچھ بھی ہے۔''
کورونا وائرس بے قابو، بھارتی نظام صحت بے بس ہوتا ہوا
بھارت میں دن بدن پھلتے ہوئے کورونا وائرس بحران نے ملک کے صحت کے بنیادی ڈھانچے پر زبردست دباؤ ڈالا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں میڈیکل آکسیجن، ادویات اور ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کی اطلاع ہے۔
اس تصویر میں احمد آباد کے ایک ہسپتال کے باہر وفات پانے والے مریض کے رشتہ دار رو رہے ہیں۔ بھارت میں ہفتے کو ریکارڈ دو لاکھ چونتیس ہزار سے زائد کورونا کیسز درج کیے گئے تھے۔ کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی دو وجوہات ہیں، ایک کورونا وائرس کی نئی قسم ہے، جو تیزی سے پھیلتی ہے، دوسرا لوگ سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھتے۔
تصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance
آکسیجن کی کمی
متعدد بھارتی ریاستوں میں میڈیکل آکسیجن کی کمی واقع ہو چکی ہے جبکہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ اتوار کو دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی کہا تھا کہ میڈیکل آکسیجن کی کمی ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے صنعتی پلانٹس سے میڈیکل آکیسجن طلب کی ہے۔
تصویر: Ajit Solanki/AP Photo/picture alliance
شمشان گھاٹ بھر گئے
بھارت میں وفات پانے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات کے لیے لائنیں لگ چکی ہیں۔ وہاں ملازمین کی شفٹیں کم از کم بھی چودہ گھنٹوں کی کر دی گئی ہیں۔
تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں کو کووڈ مریضوں کے بڑی تعداد کا سامنا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق متعدد ہسپتالوں میں کورونا میں مبتلا تشیویش ناک حالت کے مریضوں کو بھی بیڈ میسر نہیں ہے۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹ بھرے پڑے ہیں۔ دہلی حکومت نے آکسیجن سے لیس نئے بیڈ متعدد اسکولوں میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت نے دوا ساز کمپنیوں سے ادویات اور طبی آکسیجن کی سپلائی بڑھانے کی اپیل کی ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق متاثرہ ریاستوں تک ادویات اور آکسیجن پہنچانے کے لیے خصوصی ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔ بھارت میں ادویات اور آکسیجن بلیک مارکیٹ میں بکنا شروع ہو گئی ہے جبکہ استطاعت رکھنے والے مہنگے داموں خرید رہے ہیں۔
صدر بائیڈن کی جانب سے اس تفتیش کا مطالبہ بعض ان مبینہ رپورٹوں کے بعد آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ووہان کی لیباریٹری میں کام کرنے والے بعض محققین اس وبا کے انکشاف سے ایک ماہ قبل ہی بیمار ہوگئے تھے۔
چین کی جانب سے سخت تنقید
امریکی صدر جو بائیڈن کے ان بیانات کے بعد ہی امریکا میں چینی سفیر نے ایک بیان جاری کر کے لیباریٹری سے لیک ہونے کے تھیوری کو ''سازشی نظریہ'' بتایا۔ بیان میں گر چہ امریکا کا نام نہیں لیا گیا تاہم اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ بعض، ''سیاسی طاقتیں وائرس کے ماخذ اور اس کے نقطہ آغاز کے حوالے سے الزام تراشی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ بعض لوگ اپنی پرانی کھیل کی کتاب کھول رہے ہیں اور غیر ذمہ دارانہ سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔''
چین کا کہنا ہے کہ اس وبا کو سیاسی رنگ دینے سے اس سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے اور چین پہلے ہی اس معاملے کی جامع تفتیش میں تعاون کر چکا ہے۔
جرمنی میں کورونا سے اموات: میت سوزی کے مراکز بھی مشکل میں
02:37
This browser does not support the video element.
ڈبلیو ایچ او کی تفتیش
عالمی ادارہ صحت نے اس برس کے اوائل میں اس وائرس سے متعلق تفتیش شروع کی تھی اور ایک وفد ووہان گیا تھا۔ تاہم وہ اس بات کی حتمی تفتیش نہیں کر پایا تھا کہ آخر یہ وائرس کس جانور سے پھیلا ہو گا۔ اس وقت بھی بعض حلقوں نے اس بارے میں چین کی جانب سے تعاون نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
تاہم ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے تفتیش کے بعد یہ بات بہت واضح انداز میں کہی تھی کہ کسی، ''لیباریٹری سے اس کا لیک ہونا انتہائی نا ممکن بات ہے۔''
یہ وائرس اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے جس سے اب تک 30 لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
جانور سے انسان اور پھر وبا تک
عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ایبولا کی ہولناک وبا چمگادڑوں کی وجہ سے پھیلی ہے، جن کے جسم میں اس کا وائرس ہوتا ہے۔ یہ وائرس انسانوں تک اس لیے پہنچتا ہے کہ افریقہ میں چمگادڑ کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وائرس پھیلانے والے
افریقہ میں مختلف قسموں کی چمگادڑوں، خاص طور پر فلائنگ فوکس کہلانے والی چمگادڑ کے جسم میں مختلف طرح کے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن میں ایبولا کا وائرس بھی شامل ہے۔ خود ان جانوروں کے لیے بے ضرر یہ وائرس انسانوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ملکوں میں لوگ بڑے سائز کی چمگادڑ کو اُس کے گوشت کی وجہ سے شکار کرتے ہیں اور یوں یہ وائرس آسانی سے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خطرہ گھات لگائے ہوئے
جریدے ’پی ایل او ایس نیگلیکٹڈ ٹراپیکل ڈیزیزز‘ میں محققین نے کہا ہے کہ چمگادڑوں کی کئی اَقسام کے اندر یا تو ایک طویل عرصے سے یہ وائرس موجود تھا اور وہ ابھی تک اتفاق سے انسانوں تک نہیں پہنچا تھا یا پھر اس وائرس کی حامل کوئی چمگادڑ وسطی افریقہ سے اُن علاقوں تک پہنچی ہے، جہاں اب ایبولا ایک وبا کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تصویر: imago
وائرس آگے پہنچانے والے جانور
بعض دفعہ چمگادڑ مختلف طرح کے پھل کھاتے ہیں اور اُنہیں پوری طرح سے ہضم کرنے سے پہلے ہی باہر اُگل دیتے ہیں۔ جب ہرن اور دیگر جانور ان پھلوں کی نیچے گری ہوئی باقیات کو کھاتےہیں تو یہ وائرس اُنہیں بھی متاثر کرتا ہے اور وہ آگے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
تصویر: DW
محققین کا انتباہ
افریقہ میں جنگلی جانوروں کو شکار کرنا اور اُن کا گوشت کھانا ایک معمول کی بات ہے۔ ’بُش مِیٹ‘ کے طور پر ان جانوروں کا گوشت بازاروں میں کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔ محققین خبردار کر رہے ہیں کہ جنگلی جانوروں میں ایسے ایسے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن کا انسان کو ابھی اندازہ تک بھی نہیں ہے۔
تصویر: DW
وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ
ان جانوروں کے گوشت کو کاٹنے اور تیار کرنے کے عمل میں بے پناہ خطرات موجود ہیں۔ ان جانوروں کے خون یا اُن کے جسم میں موجود دیگر لیس دار مادوں کے ساتھ رابطے میں آنے کی صورت میں انسان اس طرح کے وائرس کا آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ یورپ میں بھی، جہاں چمگادڑوں میں محض چند ایک خطرناک وائرس ہی پائے گئے ہیں، ننگے ہاتھوں کے ساتھ انہیں چھُونے سے منع کیا جاتا ہے۔