1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدر کے دورہ ء جرمنی پر ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

Imtiaz Ahmad20 جون 2013

یہ واقعی ایک کرشمہ ہے کہ جرمن نوجوان اب بھی باراک اوباما کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور یہاں کے سیاستدان بھی ان کی جیب میں ہیں۔

تصویر: Odd Andersen/AFP/Getty Images

نہ تو جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور اور نہ ہی آئندہ کے لیے چانسلر کے امیدوار پیر شٹائن بروک ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر نے ایک بہترین شو فراہم کیا ہے۔ اوباما اپنی مسکراہٹ اور اپنی توجہ سے ہر کسی کا دل موہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا سے آنے والے اس سٹار نے جرمن چانسلر سمیت دیگر جرمن سیاستدانوں کو بھی متاثر کیا ہے اور ہر کوئی ان کے ساتھ ایک تصویر بنوانا چاہتا تھا۔

پانچ برس پہلے کی نسبت کم ہی سہی لیکن جرمن اب بھی باراک اوباما سے محبت کرتے ہیں۔ شام، ڈرون حملے اور عالمی سطح پر انٹرنیٹ جاسوسی جیسے موضوعات پر اختلافات کے باوجود جرمن امریکا تعلقات اپنی بہترین شکل میں موجود ہیں۔ امریکا کو بخوبی احساس ہے کہ یورپی یونین میں جرمنی اس کا سب سے طاقتور اتحادی ہے۔ دوسری جانب جرمنی بھی جانتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی تبدیلی کے لیے اسے امریکی حمایت کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین سب سے اہم موضوع ٹرانس اٹلانٹک معیشت ہے۔ دونوں ملکوں کو جلد از جلد یہ سوال حل کرنا ہے کہ آیا معشیت میں تیزی ’اوباما پالسی‘ یعنی زیادہ قرضوں کے حصول یا ’انگیلا میرکل پالیسی‘ یعنی بچتی پروگرام کے تحت لائی جا سکتی ہے۔

امریکی خفیہ ادارے کی طرف سے انٹرنیٹ جاسوسی پر باراک اوباما کو شدید تنقید کا سامنا ہے لیکن گزشتہ روز پریس کانفرنس میں وہ اپنے ناقدین کو واضح دلائل کے ساتھ خاموش کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے انتہائی شائستہ انداز میں یہ احساس دلایا ہے کہ وہ ان معاملات کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

برلن کے تاریخی مقام برانڈنبرگ گیٹ پر اوباما کا خطاب قبل از وقت یا پھر تاخیر سے تھا اب یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ اوباما آئے ہیں، انہوں نے خطاب کیا ہے اور وہ کامیاب رہے ہیں۔ اس کے برعکس سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پانچ مرتبہ جرمنی آئے لیکن غیر مقبول ہی رہے۔ جان ایف کینیڈی صرف ایک مرتبہ جرمنی آئے لیکن آج پچاس برس بعد بھی ایک لیجینڈ کی حیثیت سے یاد کیے جاتے ہیں۔ جان ایف کینیڈی نے تاریخی جملہ یہ کہا تھا کہ میں ’برلن کا ایک باسی ہوں‘۔ اس سے بڑا جملہ آج تک کوئی امریکی صدر نہیں کہہ سکا، باراک اوباما بھی نہیں۔اوباما برلن کے تاریخی مقام پر تقریر کرنے میں تو کامیاب رہے ہیں لیکن ان کی تقریر میں ایسا کوئی ایک بھی جملہ نہیں تھا، جسے تاریخ میں یاد رکھا جا سکے۔

تبصرہ: بیرنڈ ریگرٹ

ترجمہ: امتیاز احمد

ادارت: زبیر بشیر

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں