امریکی عسکری اتحاد کے فضائی حملوں کے باعث شام میں ایک ماہ کے دوران 472 شہری مارے گئے، جن میں 137 بچے بھی شامل تھے۔ ستمبر 2014 کے بعد کسی ایک ماہ کے دوران ہلاک ہونے شہریوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد بنتی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران امریکی عسکری اتحاد کی کارروائیوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں دیر الزور اور الرقہ میں ہوئیں، جہاں انتہا پسند گروپ داعش ابھی تک ٹھکانے بنائے ہوئے ہيں۔
رامی عبدالرحمان کے بقول دستیاب اعدادوشمار کے مطابق شامی شہریوں کے لیے یہ ماہ خونریز ترین ثابت ہوا ہے۔ اس جنگی اتحاد نے تیئس ستمبر سن دو ہزار چودہ میں داعش کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا ہے کہ اب تک شام میں امریکی عسکری اتحاد کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار نو سو ترپن ہو چکی ہے۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
سیرئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے اس تازہ بیان پر امریکی اتحاد کی طرف سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ مئی میں ہی اقوام متحدہ نے اس عسکری اتحاد پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ شہری ہلاکتوں ميں کمی لانے کی خاطر مناسب اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں اس اتحاد نے شام میں ایسے علاقوں میں اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے، جہاں داعش نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔
شامی بحران کا آغاز سن 2011 میں پرامن مظاہروں سے ہوا تھا تاہم جلد ہی یہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس خونریز تنازعے کے باعث تین لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ شام کی نصف آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ اس بحران سے قبل شام کی آبادی بائیس ملین تھی۔
عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ شامی بحران کا پر امن حل تلاش کیا جائے تاہم چھ سالوں پر محیط اس تنازعے کے ختم ہونے کے امکانات ابھی تک آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ اس دوران روس اور ایران شامی صدر بشار الاسد کی قریبی حامی تصور کیے جاتے ہیں جبکہ امریکا اور متعدد یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ شام میں قیام امن کی خاطر بشار الاسد کا اقتدار سے الگ ہونا ضروری ہے۔