امریکی عوام اپنے عمر رسیدہ رہنماؤں کے حوالے سے فکرمند
31 اگست 2023
امریکی سینیٹ میں ریپبلکن رہنما میک کونل خطاب کے دوران اچانک' منجمد' ہو گئے، ایک ماہ میں ان کے ساتھ یہ دوسری مرتبہ ہوا۔ امریکی قیادت اور بڑے عہدوں پر عمر دراز افراد کے فائز ہونے کے حوالے سے عوام اب تشویش میں مبتلا ہے۔
اشتہار
امریکی سینیٹ میں ریپبلکن رہنما مچ میک کونل بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے دوران ہی اچانک 30 سیکنڈ سے بھی زیادہ وقت کے لیے اس طرح خاموش ہو گئے کہ ان کے جسم میں ذرا سی بھی حرکت نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے انہیں کانفرنس سے باہر لے جایا گیا۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ان کے ساتھ اس طرح کا یہ دوسرا واقعہ تھا اور اس کی وجہ سے 81 سالہ سیاست دان کی صحت کی حالت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ کوونگٹن میں شمالی کینٹکی چیمبر آف کامرس میں ایک تقریب کے دوران پیش آیا۔ ایک رپورٹر نے میک کونل سے پوچھا کہ کیا وہ سن 2024 میں دوبارہ انتخاب میں حصہ لیں گے، تبھی انہوں نے پریس اور اپنے آس پاس موجود دیگر لوگوں کو جواب دینا بند کر دیا۔
بعد میں میک کونل کے ترجمان نے بتایا کہ ''لیڈر میک کونل نے آج اپنی پریس کانفرنس کے دوران لمحہ بہ لمحہ ہلکا سا محسوس کیا اور توقف کرتے رہے۔''
اطلاعات کے مطابق 26 جولائی کو یو ایس کیپیٹل میں بھی انہوں نے اسی طرح کی کیفیت محسوس کی تھی اور ایک پریس کانفرنس کے درمیان میں ہی اچانک بے حرکت ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی انہیں وہاں سے جانا پڑا تھا اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ کانفرنس میں واپس آئے تھے۔
مارچ میں بھی میک کونل واشنگٹن کے ایک عشائیہ میں بے خیالی کی حالت میں پھسل کر گر گئے تھے اور انہیں ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ پھر وہ اپریل میں سینیٹ میں واپس آئے تھے۔
اشتہار
امریکہ کی عمر رسیدہ قیادت
میک کونل ریپبلکن پارٹی کے ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں، تاہم دو بار ایسا ہونے سے ان کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ پہلی بار سن 1984 میں سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے تھے اور سن 2007 سے جی او پی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاہم اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا اب وہ کانگریس میں اور اپنے قائدانہ عہدے پر رہ پائیں گے یا نہیں۔
امریکی سینیٹ میں ارکان کی اوسط عمر 64 برس سے زیادہ کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی عمر 80 برس کی ہے، جو دوبارہ انتخاب میں حصہ لیں گے۔ جب کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اعلیٰ عہدے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، کی عمر 77 سال ہے۔
روئٹرز اور اِپسوس کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، رائے شماری میں حصہ لینے والے تقریباً 61 فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں امریکی عوام کی نمائندگی کرنے والے کانگریس کے اراکین کے عمر رسیدہ ہونے پر کافی تشویش ہے۔
ریپبلکن نمائندے مارجوری ٹیلر گرین نے ایکس پر میک کونل کے واقعے کی ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے مثال پیش کی کہ'' وہ لوگ جو عہدوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔''
ڈیموکریٹک نمائندے ڈین فلپس نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ سینیٹرز فینسٹائن اور میک کونل کے اہل خانہ، ان کے دوست اور عملہ انہیں اور ملک دونوں کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ''یہ کانگریس اور سپریم کورٹ کی مدت کے لیے حدود تعین کرنے کا وقت ہے۔''
بائیڈن سے جب اس واقعے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، '' جیسا کہ آپ جانتے ہیں، مِچ ایک دوست ہیں۔ مذاق نہیں۔۔۔۔ وہ ایک اچھا دوست ہے۔ میں آج دوپہر میں اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔''
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔