امریکا کی نگران نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس جی ویلزکے دورہء پاکستان سے ملک میں ایک بار پھریہ تاثر پیدا ہو رہا ہے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
اشتہار
امریکی عہدیدار کا یہ اس برس میں دوسرا دورہ ہے۔ کچھ ماہرین اس دورے کو خالصتاﹰ پاک امریکا تعلقات اور افغانستان میں ہونے والی عسکریت پسندی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کا خیال یہ ہے کہ روس مخالف موجودہ عالمی سیاسی ماحول میں یہ دورہ صرف افغانستان یا دوطرفہ تعلقات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دوسرے مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔
چین دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کرے گا، شی جن پنگ
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق امریکی عہدیدار نے سیکریڑی خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی ، جس میں دوطرفہ تعلقا ت اور خطے کے مسائل خصوصاﹰ افغانستان پر بات چیت کی گئی۔
دونوں عہدیداروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اشرف غنی کی امن پیش کش کے بعد جو سازگار ماحول بنا ہے اور ازبکستان میں جو کانفرنس ہوئی ہے، اس تناظر میں اس پورے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اس ملاقات میں مہاجرین کی واپسی اور سرحد کی نگرانی کا طریقہ کار بھی زیرِ بحث آیا۔
پاکستان میں ماہرین اس ملاقات کو بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کو اس قدر دیوار سے نہیں لگانا چاہتا ہے کہ وہ مکمل طور پر روس اور چین کی طرف چلا جائے۔ ’’میرے خیال میں اس دورے کا بنیادی مقصد توافغانستان ہی ہے، جہاں امریکا چاہتا ہے کہ اسلام آباد حقانی نیٹ ورک کے خلاف یا تو ایکشن لے یا پھر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے لیکن موجودہ کشیدہ صورتِ حال میں یہ ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں کے لیے وہ ورس کا خطے میں اثر ورسوخ کم کرنے کے لیے کوشش کریں اور ایسی صورت میں وہ چاہے گا کہ پاکستا ن ماسکو کی طرف نہ دیکھے۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں خطے کے ممالک روس کے خلاف نہیں جائیں گے۔’’کانگریس میں بحث ہوئی ہے جہاں یہ زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے کیونکہ اسلام آباد کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں اور ہماری جغرافیائی پوزیشن بھی اہم ہے۔ امریکا کو احساس ہے کہ پاکستان کی جغرافیا ئی حیثیت سے روس اور دوسرے ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ موجودہ حالات میں روس کو بالکل کوئی فائدہ پہنچانا نہیں چاہتا۔ انہیں معلوم ہے کہ روس پاکستان میں انرجی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ امریکا پاکستان کو ایک بار پھر دھوکا دے کر اپنی طرف کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اسی طرح معاشی طور پر اس کے دستِ نگر رہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’خطے کے ممالک امریکا کے مقابلے میں روس کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس خطے میں بھارت کے علاوہ کوئی بھی روس کے خلاف نہیں جا سکتا۔ پاکستان نے ابھی علاقائی استحکام کے حوالے سے کچھ تجاویز دی ہیں، جس کا ایران، چین اور روس سب نے خیر مقدم کیا ہے۔ خطے کے ممالک اب علاقائی تعاون چاہتے ہیں ۔ اس لیے پاکستان کسی بھی صورت روس کے خلاف نہیں جائے گا۔‘‘
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ امریکی امداد کس طرح مدد کرتی ہے؟
تصویر: picture-alliance/Zuma
مالی وسائل کی تقسیم
امریکا کا غیر ملکی امداد کا سسٹم، فارن ایڈ ایکٹ 1961 کے ماتحت آتا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی مالی مدد کو بہتر طریقے سے نافذ کرنا ہے۔ امریکا میں اس مالی مدد کو ’وسائل کی دنیا کے ساتھ تقسیم‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/KCNA
امریکا کتنی امداد دیتا ہے؟
چند حالیہ اندازوں کے مطابق امریکا کے وفاقی بجٹ کا کُل 1.3 فیصد حصہ امداد کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ تاہم کس شعبے میں کتنی مدد دی جاتی ہے اس تناسب میں ہر سال تبدیلی آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sedensky
امداد کس طرح خرچ کی جاتی ہے؟
سال 2015 کے ایک ڈیٹا کے مطابق، کُل امداد کا 38 فیصد حصہ طویل المدتی ترقیاتی معاونت کے لیے جاری کیا گیا۔ یہ امداد عام طور پر کمزور معیشت کے حامل غریب ممالک کے علاوہ صحت کے شعبے میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کو دی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain
اقوام متحدہ کا حصہ
امریکی امداد کا کُل 15 فیصد حصہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامز کے لیے مختص ہے۔ اس کے علاوہ 35 فیصد امداد عسکری اور دفاعی شعبوں کو، 16 فیصد انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر زلزلے، جنگ یا خشک سالی سے متاثرہ ممالک کو اور 11 فیصد سیاسی امداد کی مد میں دی جاتی ہے۔
تصویر: Picture alliance/Keystone/M. Girardin
کن ممالک میں امداد دی جا رہی ہے؟
دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کو امریکی امداد دی جاتی ہے۔ سال 2015 کے ڈیٹا کے مطابق افغانستان، اسرائیل، مصر اور اردن کو بنیادی طور پر زیادہ امداد دی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ امداد افغانستان کو سکیورٹی کی مد میں جبکہ اسرائیل کو عسکری میدان میں دی گئی۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
6 تصاویر1 | 6
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرد امجد شعیب نے اس دورے کے حوالے سے کہا، ’’اس دورے کا ایک مقصد یہ ہے کہ روس کے اثر و رسوخ کو خطے میں کم کیا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ پاکستان کو جھوٹے وعدوں سے بہلا یاجائے۔ آپ نے دیکھا کہ افغانستان کے امن کے حوالے سے روس لیڈ رول لے رہا ہے۔ خطے کے ممالک اس کو سن رہے ہیں۔ یہ موجودہ حالات میں امریکا کو پسند نہیں ۔ اس لیے وہ پاکستان کو ایک بار پھر جھوٹے وعدے کر کے خطے میں استحکام کے لیے کام کرنے سے روکنا چاہتا ہے لیکن خطے کے ممالک کو لگتا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے نہیں بیٹھا بلکہ اس کے مقصد کچھ اور ہیں۔ اس لیے خطے کے تمام ممالک چاہتے ہیں کہ امریکہ یہاں سے جائے۔‘‘