1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوجیوں اور منصوبہ کاروں کی اُردن آمد

18 اپریل 2013

شام کی مخدوش داخلی صورت حال کے تناظر میں اُردن میں امریکی فوجیوں اور منصوبہ کاروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اُردن اور شام ہمسایہ ملک ہیں۔ اُردن مشرق وسطیٰ میں امریکا کا حلیف بھی ہے۔

تصویر: AP

مشرق وسطیٰ میں امریکا کے حلیف ملک اُردن میں امریکی ماہرین کی آمد کے حوالے سے بیان وزیردفاع چَک ہیگل نے سینیٹ میں دیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی سینیٹ میں چَک ہیگل کے بیان سے مختلف قیاس آرائیوں جنم لیں گی اور اُن میں ایک یہ ہے کہ امریکا شام میں جاری خانہ جنگی میں براہ راست ملوث ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا اقدام ممکنہ طور پر اپنائی جانے والی طویل المدتی پالیسیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ اُردن پہنچنے والے امریکی ماہرین کی تعداد دو سو کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ اُردن کے علاقے الرصیفہ میں اُردنی فوج کے لیے ایک بڑا تربیتی مرکز امریکی اور برطانوی فوجیوں کی نگرانی میں قائم ہے۔

باراک اوباما بھی امریکا کا دورہ کر چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع چَک ہیگل کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا پر یہ سوچنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شام میں مداخلت کے حوالے سے پیدا ہونے والے اثرات کا جائزہ بھی لے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ہیگل کا تازہ بیان اوباما انتظامیہ کی شامی صورت حال کے حوالے سے اپنائی ہوئی پالیسی کا اشارہ ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکا شام میں پیدا شدہ خانہ جنگی میں الجھنے کا کوئی ارادہ سر دست نہیں رکھتا۔

چک ہیگل نے یہ بھی بتایا کہ امریکی فوج کی ایک یونٹ کو بھی اُردن روانہ کیا جا رہا ہے۔ اس یونٹ کا تعلق امریکی فوج کے ہیڈکوارٹرز سے ہے۔ سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے ہیگل نے واضح کیا کہ اگر امریکا شام کے پرتشدد معاملات میں الجھ گیا تو پھر باہر نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکا کا اُردن میں فوجی یونٹ اور ماہرین کی تعیناتی کا ایک بڑا مقصد شام کے کیمیکل ہتھیاروں پر نگاہ رکھنا ہے اور یہ بھی کوشش کرنی ہے کہ شام کی خونی صورت حال کے اثرات اردن پر مرتب نہ ہوں۔

امریکی وزیر دفاع چَک ہیگلتصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اُردن میں امریکی ماہرین کی تعداد دو سو کے لگ بھگ رہے گی اور بیشتر پلانروں کو واپس بلا لیا گیا ہے۔ دوسری جانب جو فوجی یونٹ روانہ کی جا رہی ہے ، اس کا تعلق کومبیٹ یا لڑائی والے دستوں سے ہے اور یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ نیا سیٹ اپ سابقہ عبوری انتظام کی جگہ لے گا۔ اُردن کے دارالحکومت عمّان میں بھی ایک حکومتی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ امریکی ماہرین اور فوجیوں کی موجودگی سے اُردنی فوج کی جنگی استعداد میں بہتری پیدا ہو گی۔ اس دوران اُردن کے وزیر اطلاعات اور حکومت کے ترجمان محمد مومانی کا کہنا ہے کہ عمّان حکومت شام میں فوجی مداخلت کی مخالف ہے۔

امریکی وزیر دفاع پرسوں ہفتے کے روز مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اپنے اس دورے کے دوران وہ اسرائیل، اُردن، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت جائیں گے۔ اس دورے کے حوالے س سینیٹر جان میک کین کا کہنا تھا کہ چَک ہیگل کو مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران اِس خطے سے امریکی قیادت کی خواہش رکھنے کا بھرپور اندازہ ہو سکے گا۔

(ah/zb(Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں