امریکا اپنی فوج سعودی عرب بھیج رہا ہے، جس سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب میں امریکی فوج پہلی بار تعینات ہو رہی ہے۔
اشتہار
ایران کے ساتھ جنگ کے خطرات کے پس منظر میں ریاض حکومت اور امریکی سنٹرل کمانڈ (CENTCOM) کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات سے سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کی تعینات کی تصدیق ہو گئی ہے۔
سعودی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ''سعودی عرب اور امریکا کے درمیان باہمی تعاون، اور فریقین کی طرف سے علاقائی سلامتی اور استحکام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی خواہش کے بنیاد پر ... شاہ سلمان نے امریکی فورسز کی میزبانی کی اجازت دے دی ہے۔‘‘
امریکی سنٹرل کمانڈ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی فوجیوں کی تعیناتی ''علاقے میں بڑھتے ہوئے اور حقیقی خطرات کے تناظر میں ہماری فورسز کے تحفظ کی صلاحیت کو یقینی بنانے میں اضافی صلاحیت فراہم کرے گی۔‘‘
ریاض اور واشنگٹن کی طرف سے تاہم سعودی عرب میں تعینات کیے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ تاہم بعض امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کم از کم 500 امریکی فوجیوں کو ریاض کے مضافات میں واقع پرنس سلطان ملٹری ایئر بیس پر تعینات کیا جائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران اور عالمی برادری کے درمیان سال 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہونے اور تہران حکومت کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد سے امریکا اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
خطے میں بڑھتا ہوا تناؤ
جمعہ 19 جولائی کو ایرانی انقلابی گارڈز نے آبنائے ہرمز میں برطانوی پرچم بردار ایک آئل ٹینکر کو روک لیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بحری جہاز کو بھی کچھ وقت تک روکنے کے بعد جانے کی اجازت دے دی گئی۔ آبنائے ہرمز میں سے دنیا کے تیل کی سپلائی کا ایک تہائی حصہ گزرتا ہے۔
ایران کی یہ کارروائی برطانوی بحریہ کی طرف سے جبرالٹر کے علاقے میں ایرانی آئل ٹینکر کو روکے جانے کے ردعمل میں سامنے آئی ہے۔ گریس ون نامی یہ آئل ٹینکر چار جولائی سے جبرالٹر کے ساحل کے قریب لنگر انداز ہے۔ برطانیہ کا موقف ہے کہ یہ بحری جہاز شام کے لیے خام تیل لے کر جا رہا تھا اس لیے اسے روکا گیا۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس آئل ٹینکر کو روکنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یہ کہ اقدام امریکا کی ہدایت پر کیا گیا۔
تہران حکومت نے برطانیہ کو کئی بار یہ انتباہ بھی کیا کہ اگر گریس ون کو نہ چھوڑا گیا تو اسے اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
جمعرات 18 جولائی کو امریکا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک ایرانی ڈرون طیارہ مار گرایا ہے تاہم تہران حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔ خیال رہے کہ ایران ایک امریکی ڈرون طیارہ گِرا چکا ہے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کینتھ میکنزی نے سعودی عرب کی پرنس سلطان ایئربیس کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ امریکا خلیج فارس میں بحری سفر کی سکیورٹی کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔