1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوجی ماہرین عراق پہنچ گئے، سنی انتہا پسندوں کی کارروائیاں جاری

عاطف بلوچ25 جون 2014

امریکی انٹیلی جنس حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر سنی انتہا پسندوں کے خلاف فوری کارروائی نہ کی گئی تو وہ ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ادھر بغداد حکومت کی مدد کے لیے امریکی فوج ماہرین کی پہلی ٹیم عراق پہنچ گئی ہے۔

تصویر: picture-alliance/abaca

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک اعلیٰ امریکی انٹیلی جنس اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام کے جنگجو بہت منظم طریقے سے مورچہ بند ہیں اور اگر ملکی فوج نے فوری طور پر جوابی کارروائی نہ کی تو وہ ملک کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اپنا کنٹرول مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

ان سنی انتہا پسندوں نے دس جون کو شمالی شہر موصل پر قبضہ کیا تھا اور تب سے ہی وہ بظاہر کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر دارالحکومت بغداد کی طرف پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس امریکی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں باغی اس وقت بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ انتہا پسند بہت جلد عراق بھر میں پھیل سکتے ہیں۔

امریکی فوجی عراق میں کسی جنگی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گےتصویر: Reuters

امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ اس اعلیٰ اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام نے مقامی سنی قبائل سے اتحاد بنا رکھا ہے اور وہ اپنے ہم خیال گروہوں میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندازے کے مطابق اس سنی انتہا پسند تنظیم کے پاس دس ہزار کے قریب جنگجو ہیں، جن میں سے تین تا پانچ ہزار عراق جبکہ باقی ماندہ شام میں فعال ہیں۔

دوسری طرف ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں مدد کے لیے امریکی فوجی ماہرین کی پہلی ٹیم منگل کے دن بغداد پہنچ گئی۔ اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع نے واضح کیا ہے کہ یہ امریکی فوجی کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے، بلکہ یہ صرف عراقی فورسز کو تکنیکی مدد اور مشاورت فراہم کریں گے۔

امریکی فوجی اہلکار ریئر ایڈمریل جان کربی نے بتایا کہ چالیس امریکی فوجیوں پر مشتمل دو ٹیموں نے بغداد میں اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ قلیل المدتی فوجی مشن محدود کارروائی میں شریک ہوگا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ان عراقی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں بغداد حکومت کی مدد کے لیے تین سو امریکی فوجی ماہرین روانہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

کربی کے بقول دیگر 90 امریکی ملٹری اہلکاروں نے بغداد میں عراقی فوجیوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ سینٹر بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید پچاس امریکی فوجی جلد ہی عراق پہنچ کر اس آپریشن کا حصہ بن جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو عراق میں ان باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ کربی نے مزید کہا کہ امریکا نے عراق میں اپنی فضائی نگرانی بڑھا دی اور پائلٹ اور بغیر پائلٹ طیارے روزانہ تیس تا پینتس پروازیں کر رہے ہیں۔

امریکی جان کیری نے عراق کا دورہ بھی کیاتصویر: Reuters

دوسری طرف اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عراق میں شروع ہونے والے بدامنی کے نتیجے میں جون سے لے کر اب تک کم ازکم ایک ہزار افراد ہلاک جبکہ اتنے ہی زخمی ہو چکے ہیں۔ منگل کو جنیوا میں ہیومن رائٹس کے ترجمان روپرٹ کولویلی نے بتایا کہ پانچ تا بائیس جون عراقی صوبوں نینوا، دیالہ اور صلاح الدین میں 757 شہری ہلاک جبکہ 599 زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی دورانیے میں بغداد اور اس کے نواحی علاقوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 318 ہے۔

اسی اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے منگل کو عراق کے خود مختار کرد علاقے کے رہنماؤں سے ملاقات میں ان پر زور دیا کہ وہ اس مخصوص صورتحال میں بغداد حکومت کا ساتھ دیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں