امریکی فوجی ماہرین عراق پہنچ گئے، سنی انتہا پسندوں کی کارروائیاں جاری
25 جون 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک اعلیٰ امریکی انٹیلی جنس اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام کے جنگجو بہت منظم طریقے سے مورچہ بند ہیں اور اگر ملکی فوج نے فوری طور پر جوابی کارروائی نہ کی تو وہ ملک کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اپنا کنٹرول مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
ان سنی انتہا پسندوں نے دس جون کو شمالی شہر موصل پر قبضہ کیا تھا اور تب سے ہی وہ بظاہر کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر دارالحکومت بغداد کی طرف پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس امریکی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں باغی اس وقت بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ انتہا پسند بہت جلد عراق بھر میں پھیل سکتے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ اس اعلیٰ اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام نے مقامی سنی قبائل سے اتحاد بنا رکھا ہے اور وہ اپنے ہم خیال گروہوں میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندازے کے مطابق اس سنی انتہا پسند تنظیم کے پاس دس ہزار کے قریب جنگجو ہیں، جن میں سے تین تا پانچ ہزار عراق جبکہ باقی ماندہ شام میں فعال ہیں۔
دوسری طرف ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں مدد کے لیے امریکی فوجی ماہرین کی پہلی ٹیم منگل کے دن بغداد پہنچ گئی۔ اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع نے واضح کیا ہے کہ یہ امریکی فوجی کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے، بلکہ یہ صرف عراقی فورسز کو تکنیکی مدد اور مشاورت فراہم کریں گے۔
امریکی فوجی اہلکار ریئر ایڈمریل جان کربی نے بتایا کہ چالیس امریکی فوجیوں پر مشتمل دو ٹیموں نے بغداد میں اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ قلیل المدتی فوجی مشن محدود کارروائی میں شریک ہوگا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ان عراقی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں بغداد حکومت کی مدد کے لیے تین سو امریکی فوجی ماہرین روانہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
کربی کے بقول دیگر 90 امریکی ملٹری اہلکاروں نے بغداد میں عراقی فوجیوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ سینٹر بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید پچاس امریکی فوجی جلد ہی عراق پہنچ کر اس آپریشن کا حصہ بن جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو عراق میں ان باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ کربی نے مزید کہا کہ امریکا نے عراق میں اپنی فضائی نگرانی بڑھا دی اور پائلٹ اور بغیر پائلٹ طیارے روزانہ تیس تا پینتس پروازیں کر رہے ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ عراق میں شروع ہونے والے بدامنی کے نتیجے میں جون سے لے کر اب تک کم ازکم ایک ہزار افراد ہلاک جبکہ اتنے ہی زخمی ہو چکے ہیں۔ منگل کو جنیوا میں ہیومن رائٹس کے ترجمان روپرٹ کولویلی نے بتایا کہ پانچ تا بائیس جون عراقی صوبوں نینوا، دیالہ اور صلاح الدین میں 757 شہری ہلاک جبکہ 599 زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی دورانیے میں بغداد اور اس کے نواحی علاقوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 318 ہے۔
اسی اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے منگل کو عراق کے خود مختار کرد علاقے کے رہنماؤں سے ملاقات میں ان پر زور دیا کہ وہ اس مخصوص صورتحال میں بغداد حکومت کا ساتھ دیں۔