امریکی فوج گیارہ ستمبر تک افغانستان سے نکل جائے گی، بائیڈن
14 اپریل 2021
افغانستان میں بیس برس کی معرکہ آرائی کے بعد امریکی فوج آئندہ ستمبر میں وہاں سے واپس ہوگی۔ ماہرین کے مطابق بیرونی افواج کی واپسی کے بعد طالبان پھر سے اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں۔
اشتہار
امریکی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر منگل کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن افغانستان سے اس برس گیارہ ستمبر کو امریکی افواج کے انخلاء کے ایک منصوبے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
بیس برس قبل گیارہ ستمبر کے روز ہی نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اور اسی مناسبت سے علامتی طور پر امریکا اپنی طویل ترین جنگ اسی تاریخ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکی افواج کے انخلاء کی تاریخ رواں برس یکم مئی مقرر کی تھی تاہم اب صدر بائیڈن کے فیصلے کے تحت فوجیوں کی واپسی میں مزید پانچ ماہ کی توسیع ہو جائیگی۔
نیٹو اتحاد میں شامل ایک سرکردہ رکن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس مجوزہ فوجی انخلاء کے منصوبے کے اعلان کے پس منظر میں ہی بدھ کے روز اتحادیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے ایک ویڈیو کانفرنسنگ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں نیٹو ممالک کے اس وقت نو ہزار 600 فوجی تعینات ہیں جس میں سے امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
بائیڈن انتظامیہ کے اس اعلان کے فوری بعد طالبان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ وہ ترکی میں افغانستان سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک بیرونی فوجی افغانستان سے نکل نہیں جاتے۔
قطر میں طالبان کے دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''جب تک تمام بیرونی فورسز افغانستان کی ہماری سرزمین سے مکمل طور پر نکل نہیں جاتے اس وقت تک ہم افغانستان سے متعلق فیصلہ لینے والی کسی بھی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔''
امریکی مدد کے بغیر کابل کے لیے مشکلات
گرچہ اس بات کے خدشات پہلے سے ہی ہیں کہ بیرونی افواج کی غیر موجودگی سے طالبان مزید مضبوط ہو جائیں گے اس لیے فوجی انخلا کا فیصلہ زمینی صورت حال پر منحصر نہیں ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر اہلکار کا کہنا تھا، ''صدر کا خیال ہے کہ اگر صورت حال کے مطابق پالیسی اختیار کی گئی، جیسا کہ دو عشروں سے چلی آ رہی ہے، تو پھر اس کے مطابق افغانستان میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رکنا پڑیگا۔''
’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، امریکا پاکستانی تحفظات سمجھے‘
03:01
یکم مئی کے بجائے یہ تاخیر لاجسٹک وجوہات کے سبب کرنی پڑی اور اس سلسلے میں اتحادیوں سے بھی رابطہ کر کے صلاح و مشورہ کیا گیا۔ امریکی انٹیلی جنس نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چونکہ طالبان پر اعتماد ہیں اس لیے موجودہ حکومت کو ان کے مقابلے میں کافی جد و جہد کرنی پڑیگی۔
افغانستان مین بدستور پر تشدد حملے، ہدف بنا کر قتل کی وارداتیں اور کار بم حملے ہوتے رہے ہیں۔ منگل کے روز بھی شمالی علاقے میں ایک خود کش کار بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے طالبان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے فورسز کو طالبان نے نشانہ بنایا تو پھر ان کے خلاف بھی جوابی کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے طالبان کو بہت واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب ہم اس تیاری میں ہیں اس دوران اگر انہوں نے امریکی یا اتحادی فوج پر حملہ کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔''
اشتہار
طالبان کو فتح کا یقین
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس فروری میں امریکی فوج کے انخلا سے متعلق طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس کے تحت اگر طالبان القاعدہ جیسے دیگر شدت پسندوں کی حمایت کرنا ترک کر دیں تو یکم مئی تک امریکی فوج کے نکل جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کابل کی حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا راستہ بھی ہموار کیا تھا تاہم یہ بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کابل حکومت کے فورسز کے خلاف اپنی جیت کے لیے پر اعتماد ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق، ''افغان حکومت کے فورسز شہروں اور دیگر علاقوں کی سلامتی پر مامور ہیں تاہم وہ دفاع تک ہی محدود ہیں اور ان علاقوں کو وہ دوبارہ اپنے کنٹرول میں نہیں کر پائے ہیں یا پھر وہاں اپنی موجودگی نہیں دکھا سکے ہیں جہاں گزشتہ برس ان کے پیر اکھڑ گئے تھے۔''
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
طالبان کے خطرے نے امریکا کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا