سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پروٹسٹنٹ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ایک امریکی وفد سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کو ریاض حکومت کی ملک کے قدامت پسند مذہبی تاثر کو ختم کرنے کی کاوشوں کا ایک حصہ کہا جا رہا ہے۔
اشتہار
امریکی وفد کی جانب سے کی گئی ایک ای میل میں بتایا گیا ہے کہ اس گروپ کی قیادت کمیونیکیشن کے وضع کار اور امریکی مصنف جوئل روسن برگ نے کی جبکہ سابقہ کانگریس رکن مشعل بوخمَن اور چند پروٹسٹنٹ تنظیموں کے سربراہان بھی وفد میں شامل تھے، جن میں سے بعض اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔
ای میل کے ذریعے دیے جانے والے اس بیان میں کہا گیا،’’پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے امریکی مسیحیوں کے ایک وفد کا اعلانیہ طور پر خیر مقدم کرنا پرنس محمد بن سلمان کے لیے تاریخی لمحہ تھا۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کے اس وفد نے اعلیٰ سعودی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں سعودی وزیر خارجہ عدل الزبیر، واشنگٹن میں سعودی سفیر خالد بن سلمان اور مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل محمد العیسیٰ شامل ہیں۔
ایسے مسیحی رہنماؤں کی محمد بن سلمان سے کھلم کھلا ملاقات، جو بقول خود اُن کے ساٹھ ملین مسیحیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ایک ایسا واقعہ ہے جس کا مظاہرہ سعودی حکومت کی جانب سے شاذونادر ہی کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب مذہب اسلام میں مقدس خیال کیے جانے والے مقامات میں شامل ہے اور جہاں دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کو مذہبی رسوم ادا کرنے کی اجازت نہیں، مسیحی وفد کی آمد اپنی طرز کا انوکھا واقعہ ہے۔
وفد میں شامل بعض ارکان اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں جبکہ ریاض حکومت نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان میں یروشلم پریئر ٹیم کے مائیک ایوانس بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب نے برسوں سے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنا عرب علاقوں سے اس کے انخلاء سے مشروط کر رکھا ہے۔ تاہم دوسری جانب تہران اور ریاض کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی کشیدگی اسرائیل اور سعودی عرب کو ایک ’مشترکہ ایرانی خطرے‘ کے خلاف مل کر کام کرنے کے حوالے سے قریب لا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے رواں برس اپریل میں امریکی جریدے ’دا اٹلانٹک‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں پہلی بار کھل کر کہا تھا کہ ’اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے‘۔
ص ح / ع ا / نیوز اجنسی
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔