امریکی سیاہ فام شہری جارج فلوئيڈ کے پوليس کے ہاتھوں ماورآۓ عدالت قتل کے بعد امريکا بھر ميں احتجاجی مظاہرے جاری ہيں۔ يہ احتجاج اب عالمی سطح پر بھی ہو رہے ہيں۔
اشتہار
اس وقت امريکا کی چاليس رياستوں ميں کرفيو نافذ کر ديا گيا ہے۔ مظاہروں کے دوران کئی ويڈيوز منظر عام پر آئيں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے احتجاجيوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود صحافيوں پربھی تشدد کرتے نظرآ رہے ہيں ۔ ان ويڈيوز ميں صحافی بار بار کہتے سنائی دے رہے ہيں کہ ہم صحافی ہيں اور اپنا کام کر رہے ہيں مگر پوليس انکو ربڑ بلٹس مارنے، مرچ کے اسپرے کرنے اور دھکے دينے سے باز نہيں آ رہی ہے۔
فوٹو جرنلسٹ لنڈا ٹراڈو پر مظاہرے کی کوريج کے دوران پوليس نے ان پرربڑ بلٹس سے فائر کيا جس سے وہ اپنی بائيں آنکھ کھو بيٹھيں۔ کئی صحافيوں پرپوليس کی طرف سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گيس کا استعمال بھی کيا گيا۔ اس ضمن ميں چند پوليس والوں کی گرفتاریاں بھی عمل ميں آئيں ہيں جبکہ اب تک چار ہزار مظاہرين گرفتار ہو چکے ہيں۔
مينيسوٹا ميں ڈی ڈبليو کے نمائندے، اسٹيفان سمنزپر بھی کوريج کے دوران پوليس کی طرف سے ربڑ بلٹس برسائی گئيں اور انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ اسٹيفان کے بار بار بتانے کے باوجود کہ وہ ايک صحافی ہيں اور اپنا کام کررہے ہيں، پوليس انہيں ہراساں کرتی رہی۔ اس واقعہ کے بعد ڈی ڈبليو سے خصوصی بات چيت کرتے ہوے انہوں نے بتايا کہ "ميں نے کئی مظاہروں کی کوريج کی ہے مگر اس وقت ہميں خوف ،غم وغصہ ميں ڈوبے ہوئے مظاہرين سے نہيں، بلکہ وہاں موجود پوليس اہلکاروں سے تھا۔ انکا رويہ ٹھيک نہيں تھا وہ نہيں چاہتے تھے کہ انکی ویڈيو بنےاوران مظاہروں کی رپورٹ ہو ، وہ اپنی طاقت دکھانا چاہتے تھے جو انہوں نے ہميں ہراساں کر کے دکھائی۔"
پير کے روز واشنگٹن ڈی سی ميں مظاہرين تمام دن وائيٹ ہاوس کے باہر احتجاج کرتے رہے۔ يہ مظاہرے تمام دن پر امن رہے۔
پاکستانی صحافی جہانزيب علی نے وائيٹ ہاوس کے مظاہرے کی کوريج کے دوران ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوۓ بتايا کہ جيسے ہی صدر ٹرمپ کی گورنرز کے ساتھ کال ليک ہوئی وہاں موجود احتجاجی جذباتی ہو کر نعرے لگانے لگے۔ اس کال ميں صدر ٹرمپ گورنرز سے مظاہرين کے ساتھ سخت رويہ اختيار کرنے اور انکو دس سال کی سزا دينے پر زور ديتے سنائی دے رہے ہيں۔ اس خبر کےبعد مظاہرين کا کہنا تھا کہ اگر انہيں بيس سال کی سزا بھی دی جاۓ تو بھی وہ احتجاج کرنے سے پيچھے نہيں ہٹيں گے۔
واشنگٹن ڈی سی ميں يہ پر امن مظاہرہ شام کو اس وقت بدامنی کا شکار ہوا جب وائٹ ہاوس کی ملٹری پوليس کی ايک بھاری نفری نے مظاہرين کو ہٹانے کے ليے ان کو دھکے دينے شروع کر ديے اور پھر ان کو منتشر کرنے کےليے ان پر آنسو گيس برسائی گئی۔ یہ سب اس لیے کيا گيا کيونکے صدر ٹرمپ وائٹ ہاوس سے ملحق چرچ کے سامنے تصوير کھينچوانہ چاہتے تھے۔ اس وقت یہ بات انتہائی متنازعہ بنی ہوئی ہے۔
ان مظاہروں ميں ہر رنگ ونسل کے لوگ شريک ہيں۔ امريکی عوام نسل پرستی کے خلاف لاکھوں کی تعداد ميں احتجاج کر رہی ہيں۔ کئی ریاستوں ميں رات گئے کرفيو کے باوجود مظاہرين سڑکوں پر جمع رہتے ہيں اور پوليس کی بربريت کے خلاف نعرے لگاتے ہيں۔
افريقی امريکی ايکٹوسٹ جينيٹہ کولئيرنے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوۓ کہا کہ، "ہماری قوم يہ مظالم صديوں سے برداشت کر رہی ہے۔ اس بار بھی انصاف ويسے نہيں ہو گا جيسے ہونا چاہیے۔ کچھ روز یہ مظاہرے چليں گے پھر وہی صورتحال ہو گی۔ جب تک گورنرز، مئيرز اور وائٹ ہاوس مل کر تبديلی نہيں لانا چاہيں گے، تبديلی نہيں آۓ گی اور حالات بدستور ايسے ہی رہيں گے۔"
اس وقت امريکا کی عوام انصاف مانگنےاور صدر ٹرمپ کے قائدانہ کردارپر سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ يہ سوال بھی کر رہی ہے کہ کيا امريکا کی پولیس کو ٹریننگ کی ازسرنو ضرورت ہے؟
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔