1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

امریکی معیشت اور ٹرمپ کے دعوے

30 اکتوبر 2020

پہلی مدتِ صدارت کے وقت صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ مختلف تجارتی ڈیل ختم کریں گے تا کہ امریکا میں بیروزگاری ختم ہو سکے۔ یہ درست ہے کہ سن 2016 کے بعد سے امریکی معیشت کو تقویت حاصل ہوئی تھی۔

USA Präsident Trump | Fotograf Doug Mills New York Times
تصویر: Doug Mills/abaca/picture-alliance

اگست سن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے صدر بننے کے بعد پانچ لاکھ پیداواری اداروں میں ملازمتوں پر لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کی بعض تجارتی ڈیلز اور جارحانہ پالیسیاں اپنا کر معیشت کو محفوظ بنانے کا نتیجہ ہے۔ ان کی پہلی مدتِ صدارت میں خاص طور پر چینی امریکی تجارتی جنگ نے بھی عالمی معیشت کو شدید متاثر کیا۔ ٹرمپ کے مطابق اس پالیسی سے بھی امریکی عوام کو فائدہ ملا ہے۔

امریکی انتخابات: ٹرمپ اور بائیڈن کی مہم ہیکرز کے نشانے پر

امریکی صدارتی انتخابات:آخری مباحثے میں ٹرمپ اور بائیڈن کے مابین زوردار تکرار

ٹرمپ کا دعویٰ اتنا بھی درست نہیں

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم اکنامک پالیسی انسٹیوٹ نے رواں برس اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے دعووں سے اتفاق نہیں کیا اور ایک مختلف اختلافی نکات پر مبنی ایک رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دو سالوں میں پیداواری شعبوں سے زیادہ افراد ملازمتیں چھوڑ گئے تھے۔

اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ صدر ٹرمپ کے بیانیے کے برعکس ان کی غلط، انا پرستانہ اور ناہموار پالیسیوں کی وجہ سے معنی خیز ترقی ممکن نہیں ہو سکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے میں عدم کامیابی نے سابقہ دہائی کی تمام ترقی کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اپنے مخالف صدارتی امیدوار کے ساتھ بحث میں انہوں نے انڈسٹریل سیکٹر میں سات لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

اسٹاک مارکیٹوں میں تیزی

ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل یہ بھی کہتے پھرتے ہیں کہ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی بازار حصص میں مسلسل تیزی پیدا رہی ہے۔ ان کے منصب سنبھالنے کے بعد ڈاؤ جونز اسٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس میں چالیس فیصد اضافہ ہوا اور ناسڈاق (NASDAQ) کے حصص کی مالیت دوگنا ہو چکی ہے۔ کئی ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بازارِ حصص میں تیزی کا کریڈٹ بہر حال باراک اوباما کو جاتا ہے۔ ان کے دور میں امریکی سینٹرل بینک کی جانب سے دی جانے والی مراعات تھیں۔

ٹیکس میں کمی، امراء کی چاندی

ٹیکس میں کمی کرنے پر بھی صدر ٹرمپ بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ سن 2025 تک ٹیکس کی بالائی سطح ساڑھے انتالیس فیصد سے کم کر کے سینتیس فیصد کر دیا گیا ہے۔ کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی پینتیس فیصد سے اکیس فیصد کی جا چکی ہے۔ ایک ادارے 'آئی ایچ ایس مارکیٹ‘ کے چیف اکانومسٹ جوئل پراکن کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں میں کمی سے اسٹاک مارکیٹوں کے حصص میں پانچ سے سات فیصد کی بڑھت ہوئی تھی۔ امریکی ادارے ٹیکس پالیسی سینٹر کے مطابق اس کمی نے امریکا کے بیس فیصد بڑے امراء کو سب سے زیادہ فائدہ دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کاروبار میں سرمایہ کاری اور صارفین کی خریداری کم مدتی ہلچل کے عکاس ہیں۔

شفاف تجارتی معاہدے

صدر ٹرمپ کا یہ بیانیہ بھی رہا ہے کہ 'امریکا سب سے پہلے‘ اور اس کے تحت انہوں نے چین پر ادلے کے بدلے کے تحت اربوں ڈالر کے راہداری ٹیکسوں کا نفاذ کیا۔ اسی طرح رواں برس جولائی میں امریکا، میکسیکو اور کینیڈا کے آزاد تجارتی معاہدے 'نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘ میں اپ ڈیٹ پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا۔ کورونا وبا سے امریکا میں چار کروڑ افراد نوکریوں سے فارغ ہوئے۔ ٹرمپ اس میں بھی جلد بہتری کا وعدہ کرتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلیف یورپی ممالک کو بھی نہیں اس پالیسی کے تحت بخشا۔ ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ الیکشن سے قبل معاشی اقدامات فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔

نِک مارٹن (ع ح، ع ت)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں