1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زلمے خلیل زاد اسلام آباد پہنچ گئے

4 دسمبر 2018

امریکا کے خصوصی مندوب برائے افغانستان اور پاکستان زلمے خلیل زاد افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بابت بات چیت کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔

Zalmay Khalilzad
تصویر: Getty Images/S. Mizban

زلمے خلیل زاد کی کوشش ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے ایک مراسلے میں بھی کہا گیا تھا کہ واشنگٹن انتظامیہ اسلام آباد سے تعاون چاہتی ہے۔

امريکی سفير اور طالبان کی براہ راست ملاقات، امن کی اميد

امریکا سے بات چیت جاری رکھیں گے، طالبان

زلمے خیل زاد اسلام آباد کے بعد افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی جائیں گے۔ ان ممالک کے دوروں کا مقصد افغان جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی حل تلاش کرنا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ مراسلے میں اسلام آباد سے طالبان پر اپنا اثرورسوخ  استعمال کرنے کا کہا تھا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے واشنگٹن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ اس مراسلے میں صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے کا دارومدار پاکستان کی مدد پر ہے۔

امریکی صدر افغانستان میں 17 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ طالبان کو امن مذاکرات پر مجبور کیا جائے۔ واشنگٹن حکومت کے ذرائع کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد کے خطے کے دورے کے حوالے سے اس مراسلے میں اسلام آباد حکومت سے مکمل مدد طلب کی گئی ہے۔

فضل الرحمان خلیل کی آزادانہ نقل و حرکت اور امریکی خدشات

01:57

This browser does not support the video element.

ٹرمپ نے اپنے اس مراسلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ واشنگٹن حکومت کو مکمل ادراک ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو اپنی سرزمین پر قائم طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کر سکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس مراسلے کے حوالے سے ایک مختلف نکتہ ہائے نگاہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی ہے۔

ع ت، الف الف

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں