1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی نائب صدر جو بائیڈن کا دورہ یوکرائن

افسر اعوان21 اپریل 2014

امریکی نائب صدر جو بائیڈن دو روزہ دورے پر یوکرائن پہنچ گئے ہیں۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب یوکرائن کے ایک مشرقی شہر میں چار افراد کی ہلاکت کے باعث روس کی طرف یوکرائن پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

تصویر: Reuters

واشنگٹن حکومت روس کو متنبہ کر چکی ہے کہ اس کے پاس جنیوا معاہدے پر عملدرآمد کے لیے وقت کم ہے جس کا مقصد بحران کے شکار ملک یوکرائن میں جاری کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ دوسری طرف ماسکو نے کہا ہے کہ اگر جنیوا معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو وہ مزید امریکی پابندیوں کو برداشت نہیں کرے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق توقع یہی کی جا رہی ہے کہ امریکی نائب صدر کییف حکومت کو اپنی مسلسل حمایت کا یقین دلائیں گے۔ امریکا اور نیٹو اتحادیوں نے مشرقی یورپ میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ واشنگٹن اور برسلز نے یوکرائن کی اقتصادی مشکلات کے خاتمے کے لیے کئی بلین ڈالرز امداد کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

سلاویانسک کے قریب اتوار کو علی الصبح فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Reuters

آج پیر 21 اپریل کو جو بائیڈن کے جہاز کی کییف کی جانب دوران پرواز امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ امریکی نائب صدر اپنے اس دورے کے دوران یوکرائن کے ساتھ تیکنیکی، توانائی اور اقتصادی تعاون کے شعبے میں امدادی پیکج کا اعلان کریں گے۔

یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول ایک مشرقی شہر سلاویانسک کے قریب اتوار کو علی الصبح فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے الزام عائد کیا ہے کہ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ کییف حکومت ’’انتہا پسندوں ‘‘ کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتی۔ روس کا مؤقف ہے کہ یوکرائن حکومت جنیوا معاہدے پر عملدرآمد میں ناکام رہی ہے اور قوم پرست ’رائٹ سیکٹر‘ کو غیر مسلح کرنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف قوم پرستوں کی طرف سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ سلاویانسک میں ہونے والی جھڑپ میں اس کا ہاتھ ہے۔

ہم ایک بڑی آزاد طاقت ہیں جسے معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے, سیرگئی لاوروفتصویر: REUTERS

مغرب یوکرائن کے معاملے پر روس کو تنہا نہیں کر سکتا، لاوروف

روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو اور وہ بھی روس جتنے بڑے ملک کو باقی دنیا سے الگ تھلک کرنا ممکن نہیں ہے۔ بھلے یوکرائن کے معاملے پر مغرب اس کی جتنی بھی کوشش کرلے۔ روسی دارالحکومت ماسکو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لاوروف کا کہنا تھا، ’’ہم ایک بڑی آزاد طاقت ہیں جسے معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی سطح پر بہت سے ممالک یہ نہیں چاہتے کہ روس کو تنہا کیا جائے۔

امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے ایسی ہی پالیسی پر زور دیا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کریمیا کو اپنے ساتھ شامل کرنے اور مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسند مظاہرین کی پشت پناہی کرنے پر ماسکو حکومت کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کر دینا چاہیے۔ تاہم واشنگٹن اور برسلز کی سفارتی کوششوں کے سبب 17 اپریل کو جنیوا میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کا مقصد یوکرائن کے حوالے سے جاری بحران کی شدت میں کمی لانا تھا۔ اس معاہدے پر یورپی یونین، روس، یوکرائن اور امریکا نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے مطابق تناؤ کے شکار یوکرائنی علاقوں میں غیرقانونی مسلح گروہ پیچھے ہٹائے جائیں گے اور یورپ میں سکیورٹی کی نگران تنظیم او ایس سی ای اس عمل کی نگرانی کرے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں