کیا امریکا میں نسل پرستوں کی ریلی جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے؟ امریکی شہر شارلٹ وِل میں سفید فام کٹر نسل پرستوں کے احتجاج کے بعد یہ سوال جرمنی میں بھی زیر بحث آ چکا ہے۔
اشتہار
امریکا میں انتہائی دائیں بازو کے کٹر نظریات کے حامل گروہوں اور جرمنی کے ایسے گروپوں کے مابین تعلق کافی کمزور ہے۔ اگرچہ جرمن انتہا پسند گروہ اپنے نظریات کے پرچار میں زیادہ سنجیدہ ہیں لیکن انتہا پسندی کے خلاف جرمن قوانین کافی سخت ہیں۔ اس لیے امریکا کے مقابلے میں جرمنی میں ان کی تحریک کو زیادہ کامیابی ملنے کے امکانات کم ہی ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پروفیسر تھوماس گریوَن سے خصوصی گفتگو کی، جس میں برلن کی فرائی یونیورسٹی سے وابستہ اس ماہر سیاسیات نے کہا کہ امریکا میں آزادی اظہار بہت زیادہ ہے، اس لیے وہاں انتہا پسند نازی علامات کو بھی استعمال کر سکتے ہیں، جو یقینی طور پر اشتعال انگیز ہے.
انہوں نے البتہ کہا کہ جرمنی کی صورتحال کچھ مختلف ہے۔
تھوماس نے کہا کہ جرمنی میں اس طرح کی علامات کی نمائش پر پابندی ہے جبکہ نسل پرستی کے حوالے سے قوانین زیادہ سخت ہیں۔
امریکی اور جرمن انتہا پسندوں کا موازنہ کرتے ہوئے تھوماس نے مزید کہا کہ امریکا میں یہ تحریک سیاسی طور پر کمزور ہے لیکن جرمنی میں انتہا پسند کافی زیادہ سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں نسل پرست سفید فاموں کی برتری کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے نظریات میں واضح پالیسی نہیں ملتی، جیسا کہ ٹریڈ پالیسی۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں جرمن نیو نازی پارٹی کے مقابلے میں ان امریکی گروہوں میں سیاسی شعور کم ہے۔
تھوماس کے مطابق امریکا میں نسل پرستوں کی تحریک زیادہ پرتشدد ہے، وہاں اس تناظر میں جرائم بھی کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں یہ گروہ مسلح بھی ہیں، جو کہ جرمنی میں نہیں ہے۔ تھوماس نے کہا کہ امریکا میں ان نسل پرستوں کے نفسیاتی مسائل بھی ہیں، شائد اسی لیے وہ تشدد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس ماہر سیاسیات کے مطابق جرمنی میں اس طرح کا رحجان کم ہے۔
تھوماس نے البتہ کہا کہ جرمن اور امریکی نسل پرستوں کے مابین رابطہ کاری ضرور ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے چیٹ رومز میں یہ دونوں معلومات کا تبادلہ کرتے ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شارلٹ وِل میں سفید فام نسل پرستوں کی ریلی جرمن نسل پرستوں کے لیے کچھ حد تک تقویت کا باعث ہو سکتی ہے لیکن سخت جرمن قوانین ان کی راہ میں حائل ہو جائیں گے۔ تھوماس کے بقول نشریاتی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکا میں یہ انتہا پسند کھلے عام اسلحہ تھامے گھوم رہے ہیں لیکن یورپ کے کسی ملک میں اس طرح مسلح ہو کر دندناتے پھرنا ممکن نہیں ہے۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔