امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ وہ ایران جا کر ایرانی عوام سے براہ راست بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایرانی عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت نے ایران کو کس طرح نقصان پہنچایا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو وہ ایران جانے کے لیے بھی رضا مند ہوں گے تاکہ مذاکراتی عمل کے ذریعے کشیدگی کو ختم کیا جا سکے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے جرمنی، جاپان، برطانیہ اور دیگر ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ اس مجوزہ بحری فوج کا حصہ بنیں، جو آبنائے ہرمز میں تیل کے ٹینکرز کی حفاظت پر مامور ہو۔
جمعرات کے دن امریکا کے بلومبرگ ٹی وی کے ایک پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں پومپیو نے کہا کہ وہ ایران جا کر ایرانی عوام سے براہ راست بات چیت کے خواہاں ہیں۔
پومپیو نے کہا کہ وہ ایرانی عوام کو مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت نے ان کے ملک کو کس طرح نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ایران پر تازہ امریکی پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح عالمی طاقتیں تہران حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے، جب ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی عروج پر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ برس عالمی جوہری ڈیل سے واشنگٹن کی دستبرداری کے بعد سے دونوں ممالک میں شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔
اگرچہ امریکی اور ایرانی رہنماؤں نے کئی مرتبہ عوامی سطح پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ان ممکنہ مذاکرات کو ایک دھچکا اس وقت بھی لگا، جب بدھ کے دن ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک فوجی مشیر نے کہا کہ تہران حکومت امریکا کے ساتھ کسی صورت مذاکرات نہیں کرے گی۔ گزشتہ تین ماہ سے آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکروں پر حملوں کے بعد سے امریکا اور ایران کے تعلقات مزید بگڑے ہیں۔
پومپیو نے فوکس نیوز کو دیے گئے اپنے ایک مختلف انٹرویو میں کہا کہ واشنگٹن حکومت نے جاپان، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک مجوزہ بحری فوج کا حصہ بنیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات سب کے مفاد میں ہے کہ اہم آبی تجارتی راستوں کو محفوظ بنایا جائے تاکہ آبنائے ہرمز سے تیل اور دیگر مصنوعات کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔