1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی وزیر خارجہ کا اچانک دورہ عراق

امتیاز احمد10 ستمبر 2014

عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقات سے ایک روز پہلے امریکی وزیر خارجہ ایک اچانک دورے پر بغداد پہنچ گئے ہیں۔ امریکا عراق میں سُنیوں اور کردوں پر مشتمل جامع حکومت کا قیام چاہتا ہے۔

تصویر: Reuters/B. Smialowski

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس غیر اعلانیہ دورے کا مقصد عراق کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کرنا ہے۔ وہ اس وقت مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، جہاں وہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف سیاسی، مالی اور فوجی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بغداد جانے سے پہلے وہ گزشتہ روز اردن پہنچے تھے۔ حکام کے مطابق جان کیری کے اس اچانک دورے کا مقصد عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی پر ملکی سنی لیڈروں کو مزید اختیارات دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے علاوہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جاری آپریشن کے حوالے سے بات چیت کرنا ہے۔

عراق کے سابق وزیراعظم نوری المالکی کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد عراقی وزیر اعظم اور امریکی وزیر خارجہ کے مابین ہونے والی یہ پہلی اعلیٰ سطحی میٹینگ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے کا ایک مقصد نئی عراقی حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا بھی ہے۔ جان کیری عراقی وزیر اعظم پر مزید جامع اور متحدہ حکومت کی تشکیل پر بھی زور دیں گے۔ قبل ازیں العبادی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سُنیوں کو مقامی سکیورٹی فورسز اور اقتدار پر مزید کنٹرول فراہم کریں گے۔ یہ کہا گیا تھا کہ عراق کے اٹھارہ صوبوں میں مقامی جنگجوؤں پر مبنی نیشنل گارڈ نامی ادارہ قائم کیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ سُنی علاقوں پر شیعہ اکثریت والی فوج کا کنٹرول نہیں بلکہ مقامی سُنیوں ہی کا ہو گا۔

بغداد کے اس دورے کے بعد جان کیری سعودی عرب روانہ ہو جائیں گے، جہاں وہ جدہ شہر میں عرب رہنماؤں کے مابین ہونے والی ایک میٹینگ میں شریک ہوں گے۔ جان کیری کی کوشش ہے کہ عراق اور شام میں سرگرم جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف عرب ملکوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کی جائے۔ جدہ میں ہونے والے اجلاس میں مصر، اردن، لبنان، اور چھ خلیجی ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شرکت کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر عراق میں سُنی آبادی کو زیادہ حقوق دیے جاتے ہیں تو سعودی عرب جیسا ملک بھی نئی عراقی حکومت کی حمایت اور سنی جہادی گروپ آئی ایس کی مخالفت پر تیار ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب سابق عراقی وزیر اعظم الماکی کے طرز حکومت کا شدید ناقد تھا جبکہ المالکی کہتے تھے کہ ان کے ملک میں سر گرم سُنی جنگجوؤں کو سعودی عرب جیسے ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں