1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی وزیر خارجہ کا دورہء ترکی

1 مارچ 2013

امریکی وزیر خارجہ روم میں منعقد کیے گئے فرینڈز آف سیریا کے اجلاس کے ایک روز بعد آج بروز جمعہ ترکی پہنچ گئے ہیں۔ انقرہ میں بھی اعلیٰ ترک قیادت کے ساتھ جان کیری کی ملاقاتوں میں شامی تنازعہ حاوی رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

تصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک حکام کے ذرائع سے بتایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہء ترکی کے دوران بھی شام کی صورتحال پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے یہ دونوں رکن ممالک شامی تنازعے کے فوری حل کے لیے متحرک ہیں لیکن دونوں میں اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین کو کس طرح مدد فراہم کی جائے۔ شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے وہاں سے فرار ہونے والے کم ازکم دو لاکھ افراد ہمسایہ ملک ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

جان کیری اور معاذ الخطیبتصویر: Reuters

ترکی اور شام کے مابین تقریباﹰ نو سو کلو میٹر طویل سرحد پر شامی فورسز اور باغیوں کے مابین ہونے والی لڑائی کے علاوہ شامی مہاجرین کا ترک علاقوں کی طرف فرار ہونا بھی ترک حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں انقرہ حکومت نے نیٹو کی مدد سے ان سرحدی علاقوں میں پیٹریاٹ میزائل نصب کروا لیا ہے تاکہ دمشق حکومت کی طرف سے ممکنہ میزائل حملوں کو روکا جا سکے۔

ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن شامی باغیوں کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کے شمالی علاقوں میں ’بفر زورن‘ قائم کر دینا چاہیے۔ دوسری طرف امریکا نے جمعرات کے دن روم میں منعقد ہوئے فرینڈز آف سیریا کے بین الاقوامی اجلاس میں پہلی مرتبہ شامی باغیوں کی براہ راست مدد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس اجلاس کے دوران کہا کہ واشنگٹن حکومت شامی اپوزیشن کو ساٹھ ملین ڈالر کی غیر فوجی امداد دے گی۔ جان کیری کے بقول ادویات اور خوراک پر مشتمل یہ امداد باغیوں کی سپریم ملٹری کونسل کو دی جائے گی۔

باغیوں کے لیے امریکی امداد، ناقدین کی مایوسی

اطالوی دارالحکومت روم میں منعقد ہوئے اس اجلاس کے دوران اگرچہ جان کیری نے کہا کہ شامی عوام یہ نہ بھولیں کے ایک مستقبل ان کے انتظار میں ہے تاہم متعدد ناقدین کے بقول امریکا کی طرف سے شامی باغیوں کی براہ راست امداد کا فیصلہ نہ صرف تاخیر سے کیا گیا ہے بلکہ یہ امداد ناکافی بھی ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تیئس ماہ سے جاری شامی خانہ جنگی کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران شامی صدر بشار الاسد پر ایسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں کہ انہوں نے باغیوں کی تحریک کو کچلنے کے لیے اپنے ہی عوام کے خلاف اسکڈ میزائل بھی استعمال کیے۔

اے ایف پی کے بقول فرینڈز آف سیریا کے اس حالیہ اجلاس کے نتیجے پر ناقدین نے مایوسی کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ یہ امید رکھتے تھے کہ شاید امریکا شام کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کرتےہوئے باغیوں کو معمولی نوعیت کی عسکری مدد یعنی کم ازکم حفاطتی لباس فراہم کرے گا۔

دوحہ کے بروکنگز سینٹر کے ڈائریکٹر سلمان شیخ کے بقول امریکی صدر باراک اوباما ابھی تک قائل نہیں ہوئے ہیں کہ شامی باغیوں کو مسلح کیا جائے۔ واشنگٹن حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا تو وہ انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صدر بشار الاسد کے خلاف متحرک باغی گروہوں میں سب سےزیادہ کامیاب اسلامی جنگجو گروہ النصرہ فرنٹ ہے، جسے امریکا نے گزشتہ برس ہی دہشت گرد قرار دیا تھا۔

(ab/ai(AFP, Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں