1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی وزیر دفاع کی پاکستانی آرمی چیف سے بات چیت

جاوید اختر، نئی دہلی
11 اگست 2021

امریکی وزیر دفاع نے پاکستانی آرمی چیف سے خطے میں باہمی مفادات کے حوالے سے بات چیت کی اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں مزید بہتری کے لیے واشنگٹن کی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

MSC Qamar Javed Bajwa  Armeechef von Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے منگل کے روز ٹیلی فون پر بات چیت کی اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں مزید بہتری نیز خطے میں مشترکہ کثیر مقصدی مفادات کے فروغ کے حوالے سے واشنگٹن کی دلچسپی کا اظہار کیا۔

پینٹاگون کے پریس سکریٹری جان کربی نے بتایا،”سکریٹری آسٹن اور جنرل باجوہ نے افغانستان کی موجودہ صورت حال، علاقائی سکیورٹی اور استحکام اور باہمی دفاعی تعلقات پر تفصیلی بات چیت کی۔"

انہوں نے کہا کہ آسٹن نے خطے میں سکیورٹی اور استحکام کے حوالے سے باہمی اہداف پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

محفوظ ٹھکانے بند کیے جائیں

جان کربی نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ امریکا، افغانستان اورپاکستان کے درمیان سرحد پر موجود جنگجووں کے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں پاکستانی قیادت کے ساتھ با ت چیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا،”ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محفوظ ٹھکانے افغانستان میں عدم سلامتی اور عدم استحکام میں اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ہمیں اس معاملے پر پاکستانی رہنماوں کے ساتھ با ت چیت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔"

پاکستان سے متعلق غلط تاثر بھارتی پراپیگنڈا ہے، عمران خان

جان کربی کا کہنا تھا،”ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خطے سے ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پاکستان اور پاکستان کے عوام بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم دونوں ان محفوظ ٹھکانوں کو بند کرنے کی اہمیت سے واقف ہیں اور انہیں طالبان یا کسی دوسرے دہشت گرد گروپوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔" 

وزیر دفاع لائیڈ آسٹنتصویر: SARAH SILBIGER/newscom/picture alliance

جب جان کربی سے پوچھا گیا کہ بھارت اور پاکستان، افغانستان میں کیا کردار ادا کریں گے تو امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے کہا،” ہم چاہتے ہیں کہ تمام پڑوسی ممالک ایسا کوئی اقدام نہ کریں جس سے افغانستان میں صورت حال مزید خطرناک ہوجائے، جو پہلے سے ہی خطرناک ہے۔ اور ہم اس جنگ کا بات چیت کے ذریعہ پرامن سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی دباو ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔“

خیال رہے کہ ماضی میں طالبان جنگجووں کے سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہونے اور پاکستان کی طرف سے انہیں محفوظ پناہ گاہ نیز طبی امداد فراہم کرنے پر افغانستان اور امریکا نے اسلام آباد پر نکتہ چینی کی تھی۔

افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے تقریباً بیس لاکھ افغان اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔

کیا پاک امریکا تعلقات میں رومانس ختم ہونے جا رہا ہے؟

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے افغانستان کے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے طالبان کو امریکا کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے اپنے اثرات کا استعمال کیا ہے اور افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرے۔

پاکستان اور افغانستان کی اہم سرحدی گزر گاہ پر ’ڈبل ٹیکس‘

02:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں