ہواوے: امریکی پابندیوں کے باوجود کاروبار میں بیس فیصد اضافہ
31 مارچ 2020
چین کی بہت بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کی آمدنی میں امریکی پابندیوں کے باوجود گزشتہ برس تقریباﹰ بیس فیصد اضافہ ہوا۔ پچھلے سال ہواوے کی آمدنی 123 بلین ڈالر کے برابر رہی، جس میں منافع کی مالیت نو بلین ڈالر تھی۔
اشتہار
ہواوے ٹیکنالوجیز لمیٹڈ پر امریکا کی طرف سے اپنی ٹیکنالوجی اور تکنیکی ساز و سامان کے ساتھ چینی حکومت کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ نے اس کمپنی پر کئی طرح کی کاروباری پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں۔
ہواوے تاہم اپنے خلاف ان الزامات کی سرے سے تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کے خلاف پابندیاں اس لیے لگائی ہیں کہ امریکی ٹیلیکوم اداروں کو بالواسطہ کاروباری تحفظ دیا جا سکے۔
ہواوے کی طرف سے آج منگل اکتیس مارچ کے روز بتایا گیا کہ امریکی پابندیوں کے باوجود گزشتہ برس اس کے کاروبار میں 2018ء کے مقابلے میں 19.1 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اس کمپنی کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہواوے چین کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں انتہائی کامیاب رہنے والی پہلی عالمگیر کمپنی ہے، جو سام سنگ کے بعد دنیا کا سمارٹ فون تیار کرنے والا دوسرا سب سے بڑا نجی کاروباری ادارہ بھی ہے۔ ہواوے کے مطابق دو ہزار انیس میں اسے تقریباﹰ بیس فیصد اضافے کے ساتھ کُل 858.8 بلین یوآن یا 123 بلین امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہوئی، جس میں خالص منافع کی مالیت 5.6 فیصد اضافے کے ساتھ 62.7 بلین یوآن یا نو بلین امریکی ڈالر کے برابر رہی۔
ایپل کی نئی مصنوعات میں نیا کیا ہے؟
02:07
اس دوران ہواوے کی مصنوعات کی دنیا بھر میں فروخت میں دو ہزار اٹھارہ کے مقابلے میں 19.5 فیصد کا اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ ہواوے کے بانی رَین ژَینگ فائی نے بتایا کہ 2019ء میں ان کے ادارے نے 240 ملین سمارٹ فون فروخت کیے اور یہ تعداد اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تھی۔
چین کی یہ عظیم الجثہ ٹیلیکوم کمپنی انٹرنیٹ سروسز اور فائیو جی ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی دنیا کے سرکردہ ترین اداروں میں شمار ہوتی ہے۔ اس ادارے نے امریکی کمپنی گوگل کے مقابلے میں اپنی سروسز تیار اور پیش کرنے کا سسلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ہواوے سروسز کے دنیا کے 170 ممالک میں موجود صارفین کی تعداد گزشتہ برس کے اختتام پر 400 ملین سے زیادہ بنتی تھی۔
صرف چین میں ہی اس کمپنی کے کارکنوں کی تعداد ایک لاکھ 94 ہزار کے قریب ہے اور ان میں سے شیئر ہولڈرز کی صورت میں اس ادارے کے ملکیتی حقوق کے حامل چینی شہریوں کی تعداد تقریباﹰ ایک لاکھ پانچ ہزار بنتی ہے۔
م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)
کوبالٹ کا لالچ، زندگیاں داؤ پر
کانگو کوبالٹ کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یہ دھات اسمارٹ فونز اور کاروں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ مگر جہاں سے یہ دھات نکالی جاتی ہے وہاں زمین اور پانی آلودہ ہو جاتا ہے اور بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: Lena Mucha
کیپوشی کا زہریلا صحرا
کانگو کے جنوبی شہر کیپوشی کے قریب ایک مصنوعی صحرا موجود ہے۔ 1990ء کی دہائی تک یہاں ایک کان موجود تھی جس کی وجہ سے کئی کلومیٹر تک زمین بنجر ہو چکی ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں کچھ نہیں اگتا۔ دریا بھی زہریلا ہو چکا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والوں کے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی خامیاں موجود ہیں۔
تصویر: Lena Mucha
جسمانی نقائص والے اور مردہ بچوں کی پیدائش
ایک مقامی ہسپتال میں جسمانی نقائص کے ساتھ مثلاﹰﹰ کٹے ہوئے ہونٹ اور مڑے ہوئے پاؤں وغیرہ کے ساتھ اکثر بچے پیدا ہوتے ہیں۔ کیپوشی کے چارلس لیوانگا ہسپتال میں مارچ کے مہینے میں ہی تین ایسے بچے پیدا ہوئے جن کا دماغ نا مکمل تھا۔ عام طور پر ایسے بچے پیدائش کے فوری بعد مر جاتے ہیں۔ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر الین کے مطابق یہاں کچھ غلط ہے مگر ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں کہ اس کی وجوہات پر تحقیق ہو سکے۔
تصویر: Lena Mucha
لوگوں کی تکالیف میں کمی کے لیے تحقیق
کانگو کی یونیورسٹی آف لوبمباشی بلیجیم کی لیووین یونیورسٹی کے ساتھ مل کر اس امر پر تحقیق کر رہی ہے کہ کوبالٹ کی کان کُنی اور صحت سے متعلق مسائل کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اس ریسرچ گروپ کے ایک رُکن ٹونی کیامبے کے مطابق، ’’ہمیں یہاں کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور زہریلا مواد ہمیں بیمار کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Lena Mucha
کوبالٹ کے سبب قبل از وقت پیدائشں
کیپوشی کے سینٹ چارلس لووانگا ہسپتال میں یہ دونوں بچے قبل از وقت پیدا ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی آف لوبمباشی کے ریسرچر ٹونی کایامبے کے مطابق، ’’ہمیں شبہ ہے کہ اس علاقے میں قبل از وقت پیدائشوں کی وجہ دھاتوں کی آلودگی ہے جیسے کہ کوبالٹ۔‘‘ کیپوشی کے رہائشیوں کی اکثریت کوبالٹ کی کانوں میں کام کرتی ہے۔
تصویر: Lena Mucha
ماسینگو خاندان کے بیمار بچے
ایڈیلے ماسینگو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ۔ ان کے شوہر کوبالٹ کی ایک کان میں کام کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی 12 سال کی عمر میں نابینا ہو گئی۔ ان کا ایک بچہ پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوا اور پیدائش کے فوری بعد مر گیا۔ کیا اس کی وجہ کان کُنی ہے، انہیں اس کی خبر نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میرے بچے پیدا ہوئے تو انہوں نے خون کے نمونے لیے مگر اس کے نتائج کبھی نہ ملے۔‘‘
تصویر: Lena Mucha
کوبالٹ کی طلب میں تیزی سے اضافہ
اس کان کُن نے کوبالٹ کا ٹکڑا پکڑا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی کوبالٹ کا 60 فیصد کانگو سے نکالا جاتا ہے۔ یہ نایاب دھات لیتھیم بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے جو اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس اور الیکٹرک کاروں میں میں استعمال ہوتی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی طلب کے سبب اس کی قیمت گزشتہ دو سالوں کے دوران تین گنا ہو چکی ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے مزدور کئی طرح کے زہریلے مادوں کا سامنا کرتے ہیں۔
تصویر: Lena Mucha
کانگو کا تانبے کی کانوں کا علاقہ
GECAMINES کانگو کی سب سے بڑی کان کن کمپنی ہے۔ یہ ’’کاپر بیلٹ‘‘ کے نام سے جانے والے علاقے کے وسط میں واقع ہے۔ زیمبیا کی سرحد کے قریب اس علاقے میں کئی بین الاقوامی کمپنیاں موجود ہیں۔ ہر سال پانچ ہزار ٹن کوبالٹ نکالی جاتی ہے۔ شہر کے وسط میں موجود بڑی پہاڑی دراصل کان سے نکلنے والے ملبے سے بنی ہے۔
تصویر: Lena Mucha
زہریلا پانی
مزدور آلودہ پانی میں سے کوبالٹ اور دیگر مادوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے صرف یہی ذریعہ معاش ہے۔ ایک مقامی رہاشی کے مطابق، ’’ہم اس پانی کو شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ہماری جلد پر عجیب سی تہہ رہ جاتی ہے۔ جب ہم اس پانی میں کپڑے دھوتے ہیں تو وہ خراب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم اس پانی میں آلوؤں کو رکھیں تو ان کا ذائقہ عجیب ہو جاتا ہے۔‘‘
تصویر: Lena Mucha
ریفائنری کے قریب کی زندگی
کانگو کی ڈونگ فینگ مائننگ کے قریب رہائشی علاقہ بن گیا ہے۔ یہ کانگو میں کوبالٹ کی سب سے بڑی خریدار کمپنی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس ریفائنری سے خارج ہونے والا پانی قریبی آبادی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس پانی سے انہیں جلد کے مسائل ہوتے ہیں اور سانس کی تکلیف بھی۔ تاہم یہ کمپنی ان کی گزارشات سننے کو تیار نہیں۔
تصویر: Lena Mucha
زہر سے بچاؤ کے لیے کوئی تحفظ نہیں
لوبمباشی کے یونیورسٹی ہسپتال میں ایک ماہر جلد ایک مریض کا معائنہ کر رہا ہے۔ کانگو میں زیادہ تر کان کُن تحفظ فراہم کرنے والے لباس کے بغیر ہی کام کرتے ہیں۔ کوبالٹ، کاپر اور نکل کے علاوہ کانوں میں اکثر یورينیئم بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ ان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔