امریکی پابندیوں کے درمیان ایران کے لیے طبی ساز و سامان روانہ
1 اپریل 2020
کورونا وائرس کی وبا کے ماحول میں یورپ اور ایران کے درمیان 'انسٹرومینٹ ان سپورٹ آف ٹریڈ ایکس چینج (آئی این ایس ٹی ای ایکس) نظام کے تحت یورپی ممالک نے تہران کو پہلی بار طبی ساز و سامان برآمد کیاہے۔
اشتہار
یورپ اور ایران کے درمیان (آئی این ایس ٹی ایس ایکس) جیسے پیچیدہ بارٹر نظام کا معاہدہ امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے گزشتہ برس ہوا تھا اور فریقین تب سے اس پر عمل درآمد کے کوششوں میں مصروف تھے۔
جرمن وزارت خارجہ نے اس کے تعلق سے ایک بیان میں کہا کہ آئی این ایس ٹی ای ایکس کے نظام کے قیام سے ہی ایران کے لیے طبی ساز و سامان کی برآمد ممکن ہو پائی ہے۔
جرمن وزارت خارجہ نے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے طرف جاری ایک بیان میں کہا کہ ان ممالک نے اس نظام کے تحت پہلی بار لین دین مکمل کر لیا ہے اور یوروپ سے ایران کے لیے طبی ساز و سامان مہیا کیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق، 'انسٹرومینٹ ان سپورٹ آف ٹریڈ ایکس چینج' (آئی این ایس ٹی ای ایکس) اور اسی طرح کے ایرانی نظام، 'ایس ٹی ایف آئی' کے درمیان مزید لین دین پر کام کریں گے اور اس نظام کو اور بھی مستحکم کیا جائے گا۔''
ایران اور یورپ کے درمیان اشیاء کے بدلے اشیا کے لین دین کا یہ نظام امریکا کی ایران پر مزید سخت پابندیوں کے نفاذ کے بعد ایک برس قبل وضع کیا گیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے تھے، یہ معاہدہ جرمنی سمیت چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ اوباما انتظامیہ کی قیادت میں ہوا تھا۔ امریکی پابندیوں کے سبب یورپی کمپنیوں کے پاس بھی، امریکی تعزیرات سے متاثر ہونے کے خوف میں، ایران کے ساتھ کاوبار کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
'انسٹرومینٹ ان سپورٹ آف ٹریڈ ایکس چینج' (آئی این ایس ٹی ای ایکس) کا اہم مقصد ایران کے ساتھ جزوی کاروباری روابط برقرار رکھنا تھا تاکہ جوہری معاہدے کو پوری طرح سے معطل ہونے سے بچایا جا سکے۔ اور اب اس نظام کے تحت یورپ اور ایران کے درمیان لین دین ہو سکے گا اور اس کے تحت براہ راست پیسے کے لین دین سے بھی بچا جا سکے گا۔
سن 2015 میں امریکا، چین، برطانیہ، فرانس، روس اور جرمنی کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے میں ایران نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو اس انداز سے ڈیزائن کرنے کا عہد کیا تھا کہ وہ جوہری بم نہ بنا سکے۔ اس کے بدلے میں ایران پر عائد بہت سی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں اور ایران کے ساتھ کاروبار کو فروغ دینے پر زور دیا گیا لیکن 2018 میں جب امریکی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو ایران نے بھی اس معاہدے پر عمل کرنے سے منع کر دیا۔
ایران بھی کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور منگل اکتیس مارچ تک ایران میں چوالیس ہزار افراد میں اس وائرس کی تصدیق
ہوگئی تھی جبکہ ملک میں اب تک2900 افراد اس بیماری سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایرانی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ وبا مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور اس سے ملک میں دس ہزار افراد تک ہلاک ہوسکتے ہیں۔ امریکی پابندیوں کے سبب ایران میں اس وبا پر کنٹرول حاصل کرنا کچھ زیادہ ہی مشکل ہورہا ہے۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)
پاک ایران سرحد پر قرنطینہ مراکز کی صورتحال
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں امیگریشن گیٹ کے نزدیک قائم قرنطینہ مراکز میں 15سو سے زائد ایسے پاکستان زائرین اور دیگر شہریوں کو رکھا گیا ہے، جو ان ایرانی مقامات سے واپس لوٹے ہیں، جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
شکایات
پاکستانی شیعہ زائرین کی رہائش کے لیے مختص پاکستان ہاؤس میں بھی ایران سے واپس آنے والے سینکڑوں زائرین موجود ہیں۔ اس قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں تمام زائرین کو احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر رکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ قرنطینہ مراکز میں ڈبلیو ایچ او کے مطلوبہ معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
کنٹینرز
پاک ایران سرحد پر قائم کیےگئے قرنطینہ مراکزمیں کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایسے افراد کو رکھا جا رہا ہے، جن پرکورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ظاہرکیا گیا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سرجیکل ماسک اور پاسپورٹ
ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کو ملک واپسی پر سرحد پر ہی سرجیکل ماسک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ امیگریشن کے بعد انتظامیہ زائرین سے ان کے پاسپورٹ لے لیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ 14 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا ہونے کے بعد مسافروں کو واپس کیے جاتے ہیں۔ چند یوم قبل کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈ میں تعینات طبی عملے کو جوسرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، وہ بھی زائدالمیعاد تھے۔
تصویر: DW/G. Kakar
دیکھ بھال
حکام کے مطابق تفتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مسافروں کو فراہم کی جانے والی تمام اشیاء پی ڈی ایم اے( صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
پاکستانی ووہان
تفتان کو پاکستان کا ووہان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو تفتان سے ہوکر مختلف شہروں میں گئے تھے۔ کوئٹہ میں اب تک 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچستان کے متعدد قرنطینہ مراکز سے ایسے افراد فرار بھی ہوئے ہیں، جن پر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کا خدشہ تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
قرنطینہ میں پانچ ہزار افراد
پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں اب تک ایران کے مختلف حصوں سے پاکستان آنے والے پانچ ہزار زائرین کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے صوبہ بلوچستان کو بارہ سو خیمے، ترپال، کمبل جبکہ وفاقی حکومت نے صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس فراہم کی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
تنقید
بلوچستان میں قائم قرنطینہ مراکز پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیوز بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ بلوچستان کے قرنطینہ مراکز سے واپس آنے والے افراد میں کورونا وائرس اس لیے پھیلا کیونکہ وہاں رکھے گئے افراد کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کی رائے
ماہرین کے بقول بلوچستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران ان کی رائے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں تعینات ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے شکایت کی کہ انہیں پرنسل پروٹیکشن کٹس بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اس دوران حکومت بلوچستان نے مرکزی حکومت سے پاک ایران اور پاک افغان سرحد کے غیر قانونی نقل وحمل ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
چمن میں بھی قرنطینہ مراکز
پاک افغان سرحد چمن میں بھی افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے ایک کھلے میدان میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مسافروں کے لیے سینکڑوں خیمے لگائے گئے ہیں۔