1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی پروفیسر کا ایرانی صدر بننے کا خواب

26 مارچ 2013

اپنے آبائی وطن سے ہزاروں میل دور ایک ایرانی نژاد امریکی شہری ایران کے اگلے صدر بننے کے خواہش مند ہیں لیکن ممکنہ طور پر تہران میں منصب صدارت پر فائز ہونے کے لیے انہیں ابھی مشکلات کا ایک سمندر عبور کرنا ہے۔

تصویر: dapd

یہ شخصیت امریکا کی رٹگرز یونیورسٹی کے پروفیسر ہوشنگ امیر احمدی کی ہے، جنہوں نے گزشتہ سال ہی اپنے ایرانی صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کر دیا تھا۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے امیر احمدی نے نیویارک، کیلی فورنیا اور دبئی میں رقوم جمع کرنے کی اپنی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکا سے وہ تقریباﹰ 60 ہزار اور دبئی سے 80 ہزار ڈالر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں وہ اگلے ماہ ایران کا دورہ بھی کریں گے اور عوامی سطح پر اپنی اس مہم کے لیے ایک خاتون کو مینیجر مقرر کریں گے۔

65 سالہ امیر احمدی امریکا میں چالیس سال سے قیام پذیر ہیں۔ وہ امریکا کو ’اپنا ملک‘ قرار دیتے ہیں۔ وہیں پر وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور ان کی بیٹی نے ریاست نیو جرسی میں پرورش پائی۔ صدارتی عہدے کے لیے ان کی خواہش اس بات کی عکاس ہے کہ وہ اپنے اور دوسرے ایرانی نژاد امریکیوں میں پائی جانے والی سیاسی مصالحت کی سوچ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ امیر احمدی کا کہنا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی خاص طور پر امریکا میں رہنے والے ایرانیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

ایران کے موجودہ صدر محمود احمدی نژاد سن 2009 میں دوسری مرتبہ صدارتی عہدے پر فائز ہوئے تھے اور اب وہ ایک بار پھر الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔ احمدی نژاد کے دور میں مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ اور پابندیوں کے باوجود تہران اپنے اٹیمی پروگرام اور اس سے متعلق اپنے سخت موقف سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ احمدی نژاد کا اسرائیل کے خلاف رویہ بھی سخت رہا ہے۔ وہ اسرائیل کو کرہء ارض سے مٹا دینے سے متعلق بیانات دے چکے ہیں۔ ان کے دور صدارت میں ایران نے مغربی ممالک کی پالیسیوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کئی سال پہلے امیر احمدی کی اس وقت اکیس سالہ بیٹی نے اپنے باپ سے یہ سوال پوچھا تھا کہ امریکا اور ایران ایک ساتھ کیوں نہیں چل سکتے؟ اس سوال سے متاثر ہو کر پروفیسر امیر احمدی نے ایک غیر سرکاری تنظیم ’امریکی ایرانی کونسل‘ قائم کی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے کام شروع کر دیا تھا۔

ایرانی سپریم لیڈرتصویر: picture-alliance/landov

اگرچہ امیر احمدی صدارتی عہدے کے لیے اہم امیدوار نہیں ہیں لیکن ان سمیت تمام صدارتی امیدواروں کے ناموں کی حتمی منظوری گارڈین کونسل دے گی۔ امریکی شہریت اور طرز حکومت اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ان کے خیالات کی بناء پر امیر احمدی کے فوراﹰ ہی نااہل قرار دیے جانے کا امکان ہے۔ ایک ایرانی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر Mehryad Boroujerdi نے کہا ہے کہ امیر احمدی صدارت کے عہدے کے لیے کوئی سنجیدہ امیدوار نظر نہیں آتے اور انہیں گارڈین کونسل سے گرین سگنل ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ’’امیر احمدی کی امریکی شہریت ہی ان کی نااہلیت کے لیے کافی ہے۔‘‘ خود امیر احمدی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس امریکا اور ایران دونوں ممالک کے شہری حقوق ہیں۔

گارڈین کونسل کے سربراہ آیت اللہ احمد جنتی نے کہا ہے کہ ایران میں انتخابات کا عمل شفاف ہوتا ہے اور صدارتی امیدواروں کا انتخاب قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ امیر احمدی پرامید ہیں کہ ان کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر منظور کر لیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے گارڈین کونسل کے ممبران سے بات چیت کر چکے ہیں۔ امیر احمدی نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکا اور ایران میں بہت کام کیا ہے اور وہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا کسی بھی سیاسی دھڑے سے کوئی اتحاد یا تعلق نہیں ہے۔

امیر احمدی کا کہنا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان موجود بہت سے تنازعات کو اعتماد سازی اور ڈپلومیسی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ ’’ایران کو یورینیم کی افزودگی کا حق حاصل ہے۔ مغربی ممالک کو ایران کی بات کا یقین دلانا ہی مسئلے کا حل ہے۔ میرے خیال میں مسئلہ یورینیم کی افزودگی کا نہیں بلکہ اعتماد کی کمی کا ہے۔‘‘

zh / mm (AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں