امریکہ نے کییف کی ماسکو کے خلاف جنگ میں یوکرین کو اپنا پیٹریاٹ دفاعی میزائل سسٹم مہیا کرنے کا اعلان یوکرینی صدر زیلنسکی کے دورہ واشنگٹن سے قبل کیا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کا پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم ہے کیا؟
اشتہار
اس سال فروری کے اواخر میں روس کی طرف سے فوجی مداخلت کے بعد سے کییف اور ماسکو کے مابین گزشتہ قریب دس ماہ سے جو جنگ جاری ہے، اس دوران یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی ایک مرتبہ بھی بیرون ملک نہیں گئے تھے۔ صدر زیلنسکی نے اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے لے کر اب تک پہلی مرتبہ رواں ہفتے امریکہ کا جو دورہ کیا، وہ ان کا اولین غیر ملکی دورہ تھا۔
صدر زیلنسکی بدھ اکیس دسمبر کو واشنگٹن پہنچے، جہاں انہوں نے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کرنے کے علاوہ امریکی کانگریس کے اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ ان کی واشنگٹن آمد سے قبل ہی امریکی حکومت کی طرف سے یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ واشنگٹن یوکرین کو مزید 1.85 بلین ڈالر کی فوجی امداد دے گا۔
اس فوجی امداد کے تحت یوکرینی فوج کو امریکہ کا پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم نامی وہ دفاعی میزائل نظام بھی مہیا کیا جائے گا، جس کے بارے میں صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو اس میزائل سسٹم کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یوں یوکرین روسی فضائی حملوں کو روکتے ہوئے کامیابی سے اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے۔
۔ پیٹریاٹ (PATRIOT) میزائل سسٹم دراصل ایک ایسا دفاعی نظام ہے، جو Phased Array Tracking Radar for Intercept on Target کا مخفف ہے۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم ہے، جو امریکہ کی Raytheon ٹیکنالوجیز کارپوریشن کا تیار کردہ ہے۔ اس نظام کو امریکہ مسلح افواج کے پاس موجود جدید ترین اور مؤثر ترین فضائی دفاعی نظام قرار دیا جاتا ہے۔
اشتہار
۔ پیٹریاٹ میزائل سسٹم پہلی مرتبہ 1991ء کی خلیجی جنگ میں استعمال کیا گیا تھا، جب اس نظام کی بیٹریاں سعودی عرب، کویت اور اسرائیل کے دفاع کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔ بعد میں یہی میزائل سسٹم 2003ء میں عراق میں امریکی فوجی مداخلت کے وقت بھی استعمال کیا گیا تھا۔
۔ یہ میزائل نظام ایک ایسا موبائل سسٹم ہے، جو ایک بہت طاقت ور ریڈار، ایک کنٹرول سٹیشن، ایک پاور جنریٹر، لانچنگ سٹیشنز اور کئی طرح کے دیگر سپورٹ ہارڈ ویئر پر مشتمل ہوتا ہے۔
۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مطابق یہ میزائل سسٹم 150 کلومیٹر یا 93 میل تک اپنے ہدف کو بالکل درست حد تک نشانہ بنا کر تباہ کر سکتا ہے۔
اس سسٹم کی قیمت کتنی ہے؟
پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی ایک نئی تیار کردہ بیٹری کی قیمت ایک بلین ڈالر سے زائد ہوتی ہے۔ سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مطابق اس ایک ارب ڈالر سے زائد لاگت میں سے تقریباﹰ 400 ملین ڈالر تو اس سسٹم کی قیمت ہوتی ہے جبکہ ایسے میزائلوں کی ایک پوری بیٹری کی قیمت تقریباﹰ 690 ملین ڈالر بنتی ہے۔
۔ ریتھیئون ٹیکنالوجیز کارپوریشن اب تک ایسے 240 سسٹم تیار کر چکی ہے، جو امریکہ سمیت 18 مختلف ممالک کے استعمال میں ہیں۔ یہ تمام سترہ ممالک امریکی اتحادی ہیں۔ ان میزائلوں کی طلب مشرق وسطیٰ کے خطے میں بہت زیادہ ہے، جہاں کئی ریاستیں ایران کی وجہ سے اپنی سلامتی کو خطرے میں محسوس کرتی ہیں۔
۔ یہ میزائل سسٹم دنیا بھر میں 2015ء سے لے کر اب تک اپنے عسکری استعمال کے دوران 150 سے زائد بیلسٹک میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر چکا ہے۔
روسی حملے کے خلاف یوکرائن کا ردعمل کیسا ہے؟
اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ روسی افواج یوکرائنی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ حملے کے جواب میں یوکرائن میں کیا ہو رہا ہے یعنی حکومت، فوج اور شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟ یہ درج ذیل تصویر میں ملاحظہ کریں:
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
فوج کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ
روس نے بدھ 22 فروری کو مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹیسک اور لوہانسک میں فوجی دستوں کو ’امن قائم کرنے والے فوجی دستے‘ قرار دے کر داخل کیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو روس نے آزاد ریاستوں کے طور پر بھی تسلیم کر لیا ہے۔ جمعرات کو روس نے یوکرائن پر بڑا حملہ بھی کر دیا۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن کو ’غیر فوجی‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوکرائنی فوجی اہداف کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images
’یوکرائن اپنا دفاع کرے گا‘
یوکرائنی وزیر دفاع دیمترو کُولیبا نے روسی فوجی کارروائی کو ایک بڑا حملہ قرار دیا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ملک اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ جیتے گا۔ اس خطے میں روس کے بعد سب سے بڑی فوج بھی یوکرائن کی ہے لیکن روسی عسکری طاقت کے سامنے یوکرائنی حیثیت ’بونے‘ جیسی ہے۔ اس تصویر میں یوکرائنی ٹینک ڈونیٹسک علاقے کے شہر ماریوپول میں داخل ہو رہے ہیں۔
تصویر: Carlos Barria/REUTERS
روسی حملے کا وقت علی الصبح
روس کے علی الصبح شروع کیے جانے والے حملے میں کییف، خارکیف اور اوڈیسا میں میزائل داغے گئے اور ان کے دھماکوں سے شہری جاگ اٹھے۔ روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ روسی شہری ہوابازی کی ایجنسی نے یوکرائنی فضائی زون کو فعال جنگی زون قرار دے دیا ہے۔ کییف کی زیرزمین ٹرین سسٹم کو خالی کر کے شہریوں کو اس میں پناہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تصویر: AFP via Getty Images
پہلے فضائی اور پھر زمینی حملہ
کییف (ایک گرا ہوا میزائل) سمیت دوسرے شہروں پر میزائل داغے جانے کے بعد روس اور بیلاروس کے علاوہ کریمیا سے روسی فوجی دستے یوکرائن میں داخل ہو گئے۔ روسی زبان میں کی گئی ایک جذباتی اپیل میں یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک امن چاہتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے کی صورت میں فرار نہیں ہوں گے بلکہ ملک کا دفاع کریں گے اور اپنے آزادی، زندگیوں اور بچوں کا بھی دفاع کریں گے۔
تصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS
یوکرائنی شہریوں کا دوسرے مقامات کی جانب فرار
یوکرائنی صدر زیلنسکی نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کر دیا ہے اور لوگوں بلاوجہ خوف و ہیجان میں مبتلا ہوئے بغیر گھروں میں مقیم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس اعلان کے باوجود بے شمار یوکرائنی شہریوں نے فرار میں عافیت سمجھی ہے۔ لوگوں کی منتقلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔ اس تصویر میں مشرقی یوکرائن میں لوگ فرار ہو کر مغربی علاقے کی جانب جا رہے ہیں۔
تصویر: Chris McGrath/Getty Images
خریداری کے لیے قطاریں
دارالحکومت کییف میں پانی اور خوراک کے حصول کے لیے اسٹورز پر لوگوں کی طویل قطاریں بھی دیکھی گئیں۔ بعض لوگ محفوظ علاقوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔ کئی افراد شہر میں رہتے ہوئے مورچوں یا بنکروں میں پناہ لینے کو مناسب خیال کرتے ہیں۔ کیش مشینوں پر بھی بھیڑ دیکھی گئی۔ یہ تصویر مغربی یوکرائنی شہر لاویو کی ہے۔ لوگوں کو موٹر کاروں میں ایندھن بھروانے کی فکر بھی لاحق ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
ملے جُلےجذبات
یوکرائنی عوام میں خوف اور بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک کئی یوکرائنی شہریوں کو یقین نہیں کہ روسی افواج ان کے ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ وسطی یورپی ممالک میں یوکرائنی مہاجرین کی آمد کی پیش بندی شروع ہے۔ انسانی ہمدردی کے گروپوں نے ممکنہ انسانی بحران کے جنم لینے سے خبردار کیا ہے۔ تصویر میں یہ جوڑا مشکل فیصلہ کر کے پولینڈ یا ملک کے مغرب کی جانب روانہ ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
پیٹریاٹ سسٹم یوکرین کے کام کس طرح آئے گا؟
۔ کییف میں یوکرینی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے ان میزائلوں کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ روسی مسلح افواج کی طرف سے ڈرون حملوں اور میزائلوں کے ذریعے کیے جانے والے بہت زیادہ فضائی حملوں کا مقابلہ کر سکے۔
۔ امریکہ پیٹریاٹ میزائل سسٹم سے قبل یوکرین کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے دو عدد نیشنل ایڈوانسڈ میزائل سسٹم (NASAMS) بھی مہیا کر چکا ہے۔
۔ پیٹریاٹ میزائلوں کے ساتھ دشمن کے جنگی طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کر سکنا تو عسکری ترجیح کے حوالے سے قابل فہم بات ہے تاہم ان میزائلوں کے ذریعے ڈرونز کو تباہ کرنا فوجی حوالے سے غیر دانش مندانہ عمل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ کوئی مسلح فوجی ڈرون زیادہ سے زیادہ بھی چند ہزار ڈالر کی لاگت سے تیار ہو جاتا ہے جبکہ پیٹریاٹ سسٹم کی ایک بیٹری ایک بلین ڈالر سے زائد کے عوض ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
۔ ماہرین کے مطابق روسی یوکرینی جنگ میں کییف حکومت کی مسلح افواج کو امریکی پیٹریاٹ سسٹم مہیا کرنے سے اس جنگ کے ممکنہ نتائج پر کوئی زیادہ اثر اس لیے نہیں پڑے گا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم ہے۔ اس کے استعمال سے تاہم بڑے فضائی حملوں کی صورت میں دشمن کے میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر کے بہت زیادہ جانی نقصان سے بہرحال بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے چند اہم میزائل
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، کہوٹا ریسرچ لیبارٹریز، سپارکو اور ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن نے باہمی تعاون سے میزائل ٹیکنالوجی پر تحقیق کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کو ’’حتف‘‘ کا نام دیا گیا۔
تصویر: ISPR
پاکستانی میزائل اور ان کی رینج
پاکستانی بلیسٹک میزائل پروگرام کم فاصلے سے لے کر درمیانے فاصلے تک مار کی صلاحیت کے حامل میزائلوں سے لیس ہے۔
حتف ون میزائل
حتف ون پاکستان کا تیار کردہ پہلا شارٹ رینج بلیسٹک میزائل تھا، جس کی ابتدائی رینج 70 سے 100 کلومیٹر تھی ۔ اس میزائل کو سپارکو نے دیگر اداروں کے تعاون سے 1989 میں تیار کیا ۔ اسے 1992 میں پاکستانی فوج کے حوالے کیا گیا۔
تصویر: ISPR
حتف آٹھ، رعد کروز میزائل
حتف آٹھ یا رعد ٹو ٹربو جیٹ پاور کروز میزائل ہے۔ پاکستان نے اس میزائل کے تجربات کا آغاز اگست 2007 میں کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق متعدد تجربات کے بعد جنوری 2016 میں کیا جانے والا تجربہ اب تک کا کامیاب ترین تجربہ تھا۔ اس میزائل کی رینج 350 کلومیٹر تک ہے۔
تصویر: ISPR
حتف سکس، شاہین ٹو میزائل
شاہین ٹو میڈیم رینج بلیسٹک میزائل دراصل شاہین ون میزائل کا اپ گریڈ ورژن ہے جسے ابتدا میں شاہین ون میزائل کے ساتھ سیکنڈ سٹیج موٹر کے طور پر لگایا گیا تھا۔ سنہ 2000 میں منظر عام آنے والے اس میزائل کا پہلا تجربہ 2004 میں کیا گیا جب کہ آخری ٹریننگ لانچ تجربہ 2014 میں کیا گیا تھا ۔ اس کی رینج 1500 سے 2000 تک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
حتف ٹو، ابدالی میزائل
حتف ٹو یا ابدالی شارٹ رینج بلیسٹک کو ابتدائی دور پر حتف ون میزائل کے ٹو اسٹیج ورژن کے طور پر تیار کیا گیا اور حتف ون میزائل کے نچلے حصے میں ٹھوس پروپیلنٹ (وہ قوت جو میزائل کی رینج بڑھاتی ہے) کے طور پر لگایا گیا تھا۔ 1997 میں اسے سنگل سٹیج میزائل میں اپ گریڈ کیا گیا۔ اس کی رینج 280 سے 400 کلومیٹر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
حتف فائیو، غوری میزائل
پاکستان نے حتف فائیو میزائل کی تیاری کا آغاز 80 کے عشرے میں کیا جسے بعد ازاں غوری میزائل کا نام دیا گیا اور باقاعدہ ٹیسٹ 1998 میں کیا گیا۔ غوری ٹو بلیسٹک میزائل کی تیاری میں اسٹیل کی جگہ ایلومینیم کا استعمال کیا گیا جس سے اس کی رینج 1800 کلومیٹر تک بڑھ گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
ابادیل میزائل
میزائل ٹیکنالوجی میں پاکستان کا اہم ہتھیار ابادیل میزائل ہے۔ یہ میزائل ایک وقت میں 2200 کلومیٹر تک کئی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس میزائل کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کے سائنسدانوں اور انجینئرز نے تیا ر کیا اور اس کا پہلا تجربہ 24 جنوری 2017 میں کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AA/Pakistani Army Handout
حتف فور، شاہین ون میزائل
حتف فور یا شاہین ون میزائل کی تیاری کا آغاز پاکستان نے سنہ 1993 میں کیا جس کا پہلا تجربہ اپریل 1999 میں کیا گیا۔ بعد ازاں 2002 سے 2010 تک اس کو اپ ڈیٹ کر کے مزید تجربات کئے گئے۔ اس میزائل کی رینج 750 سے 900 کلومیٹر ہے جسے مارچ 2003میں پاکستان آرمی کے حوالے کیا گیا ۔
تصویر: picture alliance / dpa
حتف سکس، شاہین ٹو میزائل
شاہین ٹو میڈیم رینج بلیسٹک میزائل دراصل شاہین ون میزائل کا اپ گریڈ ورژن ہے جسے ابتدا میں شاہین ون میزائل کے ساتھ سیکنڈ سٹیج موٹر کے طور پر لگایا گیا تھا۔ سنہ 2000 میں منظر عام آنے والے اس میزائل کا پہلا تجربہ 2004 میں کیا گیا جب کہ آخری ٹریننگ لانچ تجربہ 2014 میں کیا گیا تھا ۔ اس کی رینج 1500 سے 2000 تک ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
9 تصاویر1 | 9
پیٹریات میزائل سسٹم یوکرین کب پہنچیں گے؟
۔ ماہرین کے مطابق یوکرین کی طرف سے روس کے خلاف جنگ میں اپنے جنگی محاذوں پر امریکی پیٹریاٹ میزائل نصب کیے جانے میں کئی ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
۔ امریکی حکام کے مطابق یہ میزائل سسٹم پہلے جرمنی پہنچایا جائے گا، جہاں یوکرینی دستوں کو پہلے ان کے استعمال کی تربیت دی جائے گی، جس کے بعد ہی یہ میزائل یوکرین پہنچیں گے۔
۔ یوکرینی دستوں کی اس تربیت میں بھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں کیونکہ ہر پیٹریاٹ میزائل سسٹم کو چلانے کے لیے درجنوں فوجییوں کو مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔
۔ اس امر کا فیصلہ یوکرینی حکومت کرے گی کہ یوکرین میں یہ میزائل کیسے اور کہاں نصب کیے جائیں گے۔
۔ روس پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ یوکرین میں نصب کردہ امریکی پیٹریاٹ میزائل سسٹم روسی مسلح افواج کے نپے تلے حملوں کا جائز ہدف ہوں گے۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔