1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتچین

امریکی ڈالر آؤٹ چینی یوآن اِن، تجارت میں رجحان تبدیل؟

رابعہ بگٹی نک مارٹن ڈی ڈبلیو
8 نومبر 2025

چین نے امریکی ڈالر پر معاشی انحصار کم کرنے کی کوششیں 2008-2009 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران ہی شروع کر دی تھیں۔

اس تصویر میں چینی یوان، یورو، امریکی ڈالر اور جاپانی ین کے نوٹ دکھائی دے رہے ہیں۔
چینی یوان، یورو، امریکی ڈالر اور جاپانی ین کے نوٹ۔ تصویر: picture-alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo

چین اسی وقت اس حوالے سے محتاظ ہو گیا تھا جب امریکی فیڈرل ریزرو نے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپنے شروع کیے تھے۔بیجنگ کو یہ تشویش تھی کہ اس کے 1.9 ٹریلین ڈالر کے غیر ملکی ذخائر متاثر ہو سکتے ہیں۔

اسی لیے چین کے مرکزی بینک پی بی او سی نے جولائی 2009 میں ایک پائلٹ پراجیکٹ متعارف کرایا، جس کے تحت پہلی بار بین الاقوامی تجارتی ادائیگیاں چینی کرنسی یوآن میں کی گئیں۔ تب کیا گیا یہ فیصلہ آج 16 سال بعد ایک بڑے ہدف میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب چین کی 6.2 ٹریلین ڈالر مالیت کی سالانہ تجارت کی تیس فیصد ادائیگیاں ملکی کرنسی میں کی جاتی ہیں۔
تمام سرحد پار ادائیگیوں کو شامل کیا جائے تو یوآن کا حصہ اب 53 فیصد بنتا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ یوآن میں ادائیگیوں کی رقم امریکی ڈالر میں کی گئی ادائیگیوں سے زیادہ ہے۔

گزشتہ سال یوآن نے کچھ عرصے کے لیے یورو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا اور عالمی تجارتی منظر نامے میں سبقت لے گیا تھا۔ یہ تب دنیا میں دوسری سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی بن گئی تھی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق یوآن کا اب عالمی زرمبادلہ ذخائر میں حصہ دو اعشاریہ چار فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

عالمی منظر نامے پر یوآن کا بڑھتا ہوا کردار

جب برکس ممالک نے امریکی ڈالر کے متبادل تلاش کرنے پر غور کیا تو چین نے ایک محتاط حکمتِ عملی اپناتے ہوئے یوآن کو عالمی تجارت میں مستحکم کیا، مگر زرِ مبادلہ پر حکومتی کنٹرول برقرار رکھا۔

اسپین کے ایلکانو رائل انسٹی ٹیوٹ کے ماہر میگوئل اوتیرو ایگلیئیسس کے مطابق ’’چین چاہتا ہے کہ یوآن تجارتی منڈیوں میں خرید و فروخت کے لیے استعمال ہو تاہم وہ اسے فنانشل کرنسی بنانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔‘‘

اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر چین یوآن کو دنیا میں سرمایہ کاری یا عالمی مالیاتی منڈیوں میں آزادانہ استعمال کیے جانے کی اجازت دے دے گا تو اس سے چینی کمیونسٹ پارٹی کا ملکی مالیاتی نظام پر کنٹرول کمزور جائے گا۔ اوتیرو ایگلیئیسس کے مطابق بیجنگ سمجھتا ہے کہ کرنسی کو معیشت کے تابع ہونا چاہیے نا کہ یہ اس پر حاوی ہو۔

چین چاہتا ہے کہ یوآن کو بین الاقوامی سطح پر تجارت کے لیے استعمال کیا جائے۔تصویر: AFP

یہ ’ڈی-ڈالرائزیشن‘ نہیں ہے، چین کا موقف

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا مقصد ڈالر کو چیلنج کرنا نہیں بلکہ یوآن کو مستحکم کرنا اور خطے میں اسے تجارتی کرنسی کے طور پر مضبوط پوزیشن پر لے کر آنا ہے۔
اسپین کے ماہر میگوئل اوتیرو ایگلیئیسس کے مطابق، ''چین چاہتا ہے کہ یوآن تجارت کے لیے عالمی کرنسی بنے۔ مگر سرمایہ کاری یا مالیاتی منڈیوں میں اس کی آزادی سے بہاؤ کے حق میں نہیں ہے۔‘‘

چین نے یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد اپنی عالمی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے روس اور دیگر ممالک سے توانائی اور اجناس کے سودے یوآن میں طے کیے ہیں۔ ایوریشیا گروپ کی ڈین وانگ کے مطابق، ''بیجنگ اسے ڈی-ڈالرائزیشن نہیں گردانتا بلکہ یوآن کی علاقائی سطح پر توسیع کہتا ہے۔‘‘

یوآن میں قرض اور متبادل مالیاتی نظام

چین اپنے قرضوں اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میں بھی یوآن کو فروغ دے رہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چینی بینکوں کے بیرونی قرضے اور بانڈز چار گنا بڑھ کر 480 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ کینیا، انگولا اور ایتھوپیا نے ڈالر میں لیے گئے اپنے پرانے قرضے یوآن میں تبدیل کرا لیے ہیں یعنی اب ان قرضوں کی واپسی چینی کرنسی میں ہو گی۔ جبکہ انڈونیشیا اور قازقستان نے یوآن میں بانڈز جاری کیے ہیں۔

تجارت اور قرض کے علاوہ بھی بیجنگ نے ایک علیحدہ مالیاتی ڈھانچہ بھی پیش کیا ہے جو ڈالر کے قبضے میں جکڑے تجارتی نظاموں سے آزادانہ طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔ اسے سی آئی پی ایس یا چائنا کراس بارڈر انٹربینک پیمنٹ سسٹم کا نام دیا گیا ہے، جو بین الاقوامی لین دین کے لیے مختص سوئفٹ نامی مالیاتی نظام کا متبادل ہے۔

سنگاپور، لندن اور فرینکفرٹ جیسے بڑے مالیاتی مراکز میں یوآن کلیئرنگ ہب کھولے گئے ہیں۔

چین نے 50 سے زائد ممالک کے ساتھ کرنسی کے تبادلے کے معاہدے بھی کیے ہیں۔ یہ معاہدے مرکزی بینکوں کو اپنی مقامی کرنسیوں کو یوآن میں تبدیل کرنے کے قابل بناتے ہیں، جس سے روس اور ایران جیسے ممالک کو امریکی پابندیوں کے باوجود بین الاقوامی تجارتی منڈیوں میں ڈالر کی کمی کے سبب مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

یہ ارجنٹائن، پاکستان اور ترکی جیسے چین پر تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے انحصار کرنے والے ممالک کے لیے بھی ایک اہم پیش رفت ہے۔

کینیا، انگولا اور ایتھوپیا نے ڈالر میں لیے گئے اپنے پرانے قرضے یوآن میں تبدیل کرا لیے ہیں یعنی اب ان قرضوں کی واپسی چینی کرنسی میں ہو گی۔تصویر: picture-alliance/dpa/Imaginechina/X. Zhengyi

ڈیجیٹل یوآن کی طرف پیش رفت

چین نے اپنی مرکزی ڈیجیٹل کرنسی بھی متعارف کرائی ہے، جسے 20 سے زائد ممالک میں تجرباتی بنیادوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق، یہ قدم چین کو ڈیجیٹل خودمختار کرنسی کے میدان میں عالمی برتری دلانے کی سمت ایک قدم ہو سکتا ہے۔

چین کو درپیش اندرونی چیلنجز برقرار

چین کو ملکی سطح پر معیشت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ برآمدات میں کمی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایوریشیا گروپ کی ڈین وانگ کا کہنا ہے، ''چین کی شرح نمو اب بیرونی تجارت پر منحصر ہے اور یہی یوآن کی بین الاقوامی حیثیت کے لیے سب سے بڑا بھی امتحان ہے۔

چینی فیکٹریاں ملک کی ضرورت سے زیادہ مال بنا رہی ہیں۔ اس لیے بیجنگ کو اپنی معیشت کو چلانے کے لیے برآمدات پر زیادہ انحصار کرنا چاہیے۔ غیر ملکی مانگ کے بغیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار کے نتیجے میں، یوآن کی قدر گر سکتی ہے اور تجارت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مغربی کرنسیوں کے برعکس یوآن آزادانہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ چین کا مالیاتی نظام اب بھی ریاستی بینکوں کے ذریعے اور کڑی سیاسی نگرانی میں چلتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک یوآن مکمل طور پر قابلِ تبادلہ نہیں بنتا، وہ ڈالر جیسی عالمی مالیاتی کرنسی کی جگہ نہیں لے سکتا۔

 

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں