امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے
17 اگست 2018
ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں کی کرنسیاں لڑکھڑا رہی ہیں۔ ان میں روس کی کرنسی روبل بھی شامل ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی عالمگیر کرنسی کی حیثیت ’ختم‘ ہونے والی ہے۔
اشتہار
کرنسی کی قدر میں استحکام سے بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے نوٹ جاری کرنے والے مجاز ادارے کو اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت امریکی ڈالر کے لیے حالات اِس لیے ساز گار نہیں ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ کچھ عرصے میں متعدد ممالک کے حوالے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ ٹرمپ دور میں امریکا اور دوسری بڑی اقتصادیات کے ملک چین سے لے کر کئی دوسری چھوٹی معیشتوں کے ممالک کے ساتھ بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت چین کے ساتھ ایک طرح کی اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ کئی دوسرے اتحادی ممالک کی درآمدات پر بھی انہوں نے اضافی محصولات کا نفاذ کر دیا ہے۔ امریکی صدر روس پر بھی پابندیوں کا نفاذ کر چکے ہیں اور اب انہوں نے ترکی کو اپنے پابندیوں میں جکڑ لیا ہے۔ انہی جھگڑوں کے تناظر میں ترکی اور روس نے امریکی ڈالر کی حیثیت پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دی ہیں۔
عالمی اقتصادیات میں امریکی ڈالر کی عالمگیر کرنسی کے طور پر حیثیت چودہ فروری سن 1945 سے شروع ہوتی ہے۔ ایک بحری جہاز پر منعقدہ خصوصی تقریب میں اُس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ اور سعودی عرب کے شاہ خالد ابنِ سعود موجود تھے۔ اسی تقریب میں تیل کی فروخت امریکی ڈالر میں کرنے کی بات طے ہوئی تھی اور صدر روزویلٹ نے سعودی عرب کے عسکری تحفظ کا یقین بھی دلایا تھا۔
سعودی عرب اور امریکا کے درمیان بعض سفارتی تنازعات کے باوجود یہ ڈیل برقرار رکھی گئی۔ عالمی سطح پر تیل کی ضروریات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اسی طرح امریکی ڈالر کی حیثیت بھی مستحکم ہوتی چلی گئی۔ روزویلٹ اور سعودی بادشاہ کے درمیان سن 1945 کی ڈیل نے امریکی ڈالر کو سیاہ سونے (خام تیل) کے ساتھ ایسا نتھی کیا اب امریکی ڈالر ہی اقوام کے درمیان تجارت کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔
دنیا کے پچاسی فیصد بین الاقوامی کاروباری سودوں کا لین دین امریکی ڈالر ہی میں ہوتا ہے اور یہ بھی دنیا میں امریکی غلبے کا ایک نشان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکی ڈالر کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کئی ملکوں اور خاص طور پر چین پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں دانستہ طور پر کم رکھ رہا ہے تا کہ اقوام عالم میں یہ احساس پیدا ہو کہ چینی کرنسی بھی مضبوط ہے۔
بعض اوقات ٹرمپ بڑے دعوے کرتے ہیں اور بعد میں وہ ان سے پیچھے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی اقتصادی پالیسی اُن کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ترکی اور روس نے اپنی دو طرفہ تجارت میں اپنی اپنی کرنسیوں کے استعمال کا اعلان کیا ہے اور وہ یقینی طور پر ڈالر کے استعمال سے گریز چاہتے ہیں۔
ایسے اقتصادی ماہرین موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ ترکی اور روس جیسا رویہ اگر بقیہ ممالک بھی اپناتے چلے گئے تو امریکی ڈالر کی انٹرنیشنل تجارت میں حیثیت کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب ایسے ماہرینِ اقتصادیات بھی ہیں جن کے مطابق امریکی ڈالر انفرادی سطح پر بہت مستحکم ہے اور سرمایہ کار اس کرنسی کے استعمال پر اعتماد رکھتے ہیں۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔