امریکی ڈرون حملوں میں مزید اضافے کا امکان
4 اکتوبر 2011امریکہ نے ڈرون حملوں کی ٹیکنالوجی میں بہت پیسہ لگایا ہے اور القاعدہ کے رہنماؤں کے خلاف گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران کیے جانے والے کامیاب حملے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سرمایہ کاری اب نتائج سامنے لا رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف درپردہ جنگ زیادہ سے زیادہ کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یمن میں العولقی کو ہلاک کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائی سے پہلے تقریباً ایک مہینے تک خفیہ طریقے سے تمام ضروری اور اہم معلومات اکٹھی کی جاتی رہیں۔
درحقیقت اس طرح کی انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے کا سلسلہ بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ صدر باراک اوباما نے مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف درپردہ کارروائیوں کے سلسلے کو بہت وسیع کر دیا، ڈرون حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا اور امریکی فوج کے خصوصی یونٹوں کی نفری بھی بڑھا دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سی آئی اے اور امریکی اسپیشل فورسز زیادہ سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے لگی ہیں۔ یمن اور پاکستان میں حالیہ کامیاب کارروائیاں اسی ربط باہمی کا نتیجہ ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں کے دوران بتدریج بڑھتا چلا گیا ہے۔
مئی میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کیا گیا، جون میں ایک ڈرون حملے میں القاعدہ سے روابط رکھنے والا عسکریت پسند لیڈر الیاس کشمیری مارا گیا جبکہ اگست میں القاعدہ کے دوسرے اہم رہنما عطیہ عبدالرحمان کو شمال مغربی پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔
یمن میں ایک تازہ ڈرون حملے میں العولقی کی ہلاکت امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کی کامیابی کا ایک اور ثبوت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اوباما عراق میں زمینی جنگی سرگرمیوں کو اختتام تک پہنچا رہے ہیں اور افغانستان سے بھی انخلاء کی تیاریاں کر رہے ہیں، ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ سے زیادہ بڑھتا نظر آتا ہے۔
پاکستان میں تو برسوں سے ڈرون طیاروں کے ذریعے حملوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اگست میں امریکہ نے ڈرون طیاروں کے حملوں کے ذریعے یمن میں موجود دہشت گردوں پر بھی دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں یمن کے آس پاس مثلاً سعودی عرب میں واقع اڈے امریکہ کے بہت کام آ رہے ہیں۔ پاکستان اور یمن کے ساتھ ساتھ امریکہ کم از کم پانچ دیگر ملکوں میں بھی ڈرون طیاروں کو استعمال میں لا رہا ہے، جن میں افغانستان، صومالیہ اور لیبیا بھی شامل ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: امتیاز احمد