امریکی پولیس نے کہا ہے کہ کرسٹوفر پال ہیسن مشتبہ طور پر بڑے پیمانے پر تباہی کرنا چاہتا تھا جبکہ اس نے نمایاں سیاسی شخصیات کی ایک لسٹ بھی بنا رکھی تھی۔ اسے جمعرات کو عدالت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
امریکی حکام نے کرسٹوفر پال ہیسن پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی خواہش تھی کہ وہ دنیا میں موجود آخری شخص کو بھی ہلاک کر دے۔ کوسٹ گارڈ لیفٹیننٹ ہیسن کو اسلحے اور منشیات رکھنے کے الزام میں جمعرات کے دن میری لینڈ کی ایک عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ اس کے گھر کے تہہ خانے سے پندرہ آتشیں ہتھیار اور متعدد رائفلز برآمد ہوئیں ہیں۔
سلور سپرنگ کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ میری لینڈ میں واقع ہیسن کے گھر سے اسلحے کے علاوہ ممنوعہ منشیات بھی ملی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہیسن نے مائیکرو سوفٹ ایکسل میں ایسی نمایاں سیاسی شخصیات کی ایک لسٹ بنا رکھی تھی، جنہیں وہ مبینہ طور پر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اس فہرست میں ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی سمیت متعدد نمایاں ڈیموکریٹ سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہیسن گزشتہ کئی برسوں سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہو چکا تھا جبکہ اس نے انٹر نیٹ پر ہتھیاروں کی متعدد ویب سائٹس کا مطالعہ کیا اور ساتھ ہی جنگی حربوں سے متعلق مواد تک رسائی بھی حاصل کی۔ جون سن دو ہزار سترہ میں اس نے ایک ای میل ڈرافٹ کی تھی، جس میں کیماوی حملے کرنے کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔
عدالت کے سامنے پیش کی گئی اس ای میل کے مطابق ہسین خوراک میں بائیولوجیکل حملوں کو ایک دلچسپ خیال تصور کرتا تھا۔ واشنگٹن ہیڈ کوارٹرز میں کوسٹ گارڈ کے طور پر خدمات سر انجام دینے والے ہیسن کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نے فروری سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا میں سب سے زیادہ لبرل سیاستدانوں کے بارے میں معلومات جمع کی تھیں اور یہ پرکھنے کی کوشش کی تھی آیا سپریم کورٹ نے انہیں کوئی خفیہ سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہیسن ناورے کے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حملہ آور آندریاس بریوک کے منشور کو باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ نسل پرست بریوک نے اپنے اس منشور میں تشدد کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہی ایک طریقہ ہے، جس سے سفید فام نسل کی برتری کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ بریوک نے جولائی سن دو ہزار ایک میں اوسلو میں کارروائیاں کرتے ہوئے 77 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
امریکا میں اندھا دھند فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات
امریکا میں لوگوں پر بلااشتعال فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات جدید دور کا المیہ بن چکے ہیں۔ ان واقعات میں اوسطاً سالانہ 30 ہزار انسان مارے جاتے ہیں۔ ایسی اندھا دھند فائرنگ کے واقعات کسی بھی وقت کسی بھی جگہ رونما ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
تھاؤزنڈ اوکس کے ریستوراں میں فائرنگ
سن 2018 نومبر میں ایک اٹھائیس سالہ سابق میرین فوجی نے لاس اینجلس شہر کے نواحی علاقے تھاؤزنڈ اوکس کے ایک ریسٹورنٹ میں فائرنگ کر کے بارہ افراد کو ہلاک اور دس دیگر کو زخمی کر دیا۔ بارڈر لائن اینڈ گرل نامی ریسٹورنٹ میں ایک کالج کے نوجوان طلبہ کی پارٹی جاری تھی۔ سابق امریکی فوجی نے حملے کے بعد خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Terrill
پِٹس برگ کا کنیسہ، دعائیہ عبادت کے دوران فائرنگ
اکتوبر سن 2018 میں پِٹس برگ شہر کے نواحی یہودی علاقے کی ایک قدیمی عبادت گاہ میں کی گئی فائرنگ سے گیارہ عبادت گزار مارے گئے۔ اس حملے کا ملزم گرفتار کر لیا گیا اور اسے انتیس فوجداری الزامات کا سامنا ہے۔ امکان ہے کہ استغاثہ اس کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس حملہ آور نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کے نزدیک یہودی نسل کشی کے مرتکب ہوئے تھے اور وہ انہیں ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wittpenn
پارک لینڈ، فلوریڈا
امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے پارک لینڈ کے ایک ہائی اسکول کے سابق طالب علم نے فروری 2018ء میں اپنے اسکول میں داخل ہو کر اپنے ساتھی طلبہ پر فائرنگ کی اور کم از کم سترہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد امریکی طلبہ نے اسلحے پر پابندی کے حق میں ملک گیر احتجاج بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/E.Rua
ٹیکساس کے چرچ میں دو درجن سے زائد ہلاکتیں
امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے سدرلینڈ اسپرنگز میں ایک چھبیس سالہ نوجوان نے اپنے سسرالی رشتہ داروں سے ناراضی کے بعد ایک گرجا گھر میں داخل ہو کر حملہ کیا۔ فرسٹ بیپٹسٹ چرچ میں نومبر سن 2017 میں کی گئی اس فائرنگ کے نتیجے میں چھبیس افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک شدگان کی عمریں اٹھارہ سے بہتر برس کے درمیان تھیں۔
لاس ویگاس کے نواح میں منعقدہ کنٹری میوزک فیسٹیول کے شرکاء پر کی گئی فائرنگ کو جدید امریکی تاریخ کا سب سے خونی حملہ قرار دیا گیا تھا۔ ایک چونسٹھ سالہ حملہ آور نے ایک ہوٹل کی کھڑکی سے میلے کے شرکاء پر بلااشتعال فائرنگ کر کے انسٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ آٹھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس شخص نے بعد میں خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔ اس حملے کے محرکات ابھی تک غیر واضح ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. J. Sanchez
پَلس نائٹ کلب، اورلینڈو
ایک افغان نژاد امریکی نے ریاست فلوریڈا کے بڑے شہر اورلینڈو کے ہم جنس پرستوں کے ایک کلب میں داخل ہو کر کم از کم پچاس افراد کو اپنی رائفل سے بلااشتعال فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ جون سن 2016 میں کیے گئے اس حملے کی وجہ حملہ آور کی ہم جنس پرستی سے شدید نفرت تھی۔ اس حملے کی دنیا بھر کے ہم جنس پرست حلقوں نے مذمت کی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Young
سینڈی ہُک اسکول، نیو ٹاؤن، کنَیٹیکٹ
امریکی ریاست کنیٹیکٹ کے شہر نیو ٹاؤن کے سینڈی ہُک ایلیمنٹری اسکول میں ایک بیس سالہ نوجوان نے داخل ہو کر فائرنگ کی اور کم از کم بیس افراد کو ہلاک کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چھ اساتذہ کے علاوہ باقی سب چھ سے آٹھ برس تک کی عمر کے بچے تھے۔ حملہ آور نے اس حملے سے قبل اپنی والدہ کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ بعد ازاں اس نوجوان نے خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: AP
سینچری سِکسٹین تھیٹر، اورورا
ریاست کولوراڈو کے شہر اورورا میں ایک فلم دیکھنے والوں کو جولائی سن 2012 میں ایک مسلح شخص کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فائرنگ میں چودہ افراد ہلاک اور پچاس دیگر زخمی ہوئے تھے۔ فلم بین بیٹ مین سیریز کی فلم ’دی ڈارک نائٹ رائزز‘ دیکھ رہے تھے جب ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورجینیا ٹیک یونیورسٹی، بلیکس برگ
ورجینیا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ایک طالب علم نے فائرنگ کر کے بتیس افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اپریل سن 2007 کی اس فائرنگ کے بعد امریکی عوام نے بہت بااثر نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن کی مخالفت شروع کر دی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ تنظیم امریکا میں گن کنٹرول قوانین کی مخالف ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Maury
کولمبائن ہائی اسکول، لِٹلٹن
ریاست کولوراڈو کے شہر لِٹلٹن میں کی گئی اس فائرنگ نے پوری امریکی قوم کو صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔ یہ کسی اسکول میں اندھا دھند فائرنگ کا پہلا واقعہ تھا۔ کولمبائن ہائی اسکول کے دو ناراض طلبہ خودکار ہتھیار لے کر اسکول میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے فائرنگ کر کے تیرہ انسانوں کی جان لے لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Jefferson County Sheriff's Department