ٹرمپ انتظامیہ نے ملکی امیگریشن قوانین مزید سخت بناتے ہوئے قانونی طور پر امریکا پہنچنے والے تارکین وطن کے لیے بھی گرین کارڈ کا حصول انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
اشتہار
امریکی امیگریشن قوانین پہلے ہی قانونی طور پر امریکا آنے والے تارکین وطن کو مستقل شہریت یا پھر گرین کارڈ حاصل کرنے کے لیے ان کے معاشی طور پر خود کفیل ہونے کے متقاضی تھے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے ان قوانین میں مزید سختی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نئے ضوابط کے تحت اب امریکا میں مستقل سکونت کے خواہش مند اگر ’میڈیک ایڈ‘، ’فوڈ اسٹیمپس‘ یا ’ہاؤسنگ ووچر‘ سمیت دیگر منصوبوں کے ذریعے سماجی امداد حاصل کریں گے، تو ایسے تارکین وطن کو امریکی گرین کارڈ نہیں ملے گا۔
امیگریشن سے متعلق نئے امریکی وفاقی قوانین کا اعلان پیر بارہ اگست کے روز کیا گیا اور ان کا اطلاق رواں برس اکتوبر کے مہینے سے کر دیا جائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ سیاسی پناہ کی تلاش میں امریکا کا رخ کرنے والے افراد کے لیے پہلے ہی سخت ترین قوانین متعارف کرا چکی ہے۔ قانونی طور پر امریکا پہنچنے والے افراد کے لیے متعارف کرائے گئے تازہ ضوابط ٹرمپ انتظامیہ کی امریکی امیگریشن قوانین مزید سخت کر دینے کی وسیع تر پالیسی ہی کا ایک حصہ ہیں۔
ان قوانین کے حوالے سے صدر ٹرمپ پر شدید تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ نیا امیگریشن سسٹم امریکی اقدار سے متصادم نہیں ہے۔
شہریت اور مہاجرت سے متعلق امریکی ادارے کے سربراہ کین کوشینیلے کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کرنے کی امریکی روایت کے منافی اقدامات نہیں کر رہے۔ ان کے مطابق نئے ضوابط اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ امریکا میں مستقل رہائش کے خواہش مند افراد معاشی طور پر خود کفیل ہوں اور سماجی مراعات پر انحصار نہ کریں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے نئے امریکی امیگریشن ضوابط پر شدید اعتراض کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے باعث قانونی طور پر امریکا میں رہنے والے تارکین وطن خوف کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ گرین کارڈ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد اشد ضرورت کے وقت بھی اپنی صحت یا رہائش کے حوالے سے حکومتی اداروں سے مدد مانگنے سے گریز ہی کریں گے اور اس سے ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ش ح / م م (ڈی پی اے، اے پی)
ایسے پاسپورٹ جن سے دنیا کے دروازے کھلتے یا بند ہو جاتے ہیں
سفر دنیا میں بسنے والے دیگر انسانوں اور ان کے معاشروں سے متعارف کراتا ہے اور پاسپورٹ بیرون ملک سفر کے دروازے کھولتا ہے۔ سن 2019 کے ہینلی پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق دنیا کے طاقتور ترین اور کمزور ترین پاسپورٹس پر ایک نظر۔
اس برس دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ جاپان کا ہے جس کی مدد سے 190 ممالک کا سفر ویزا حاصل کیے بغیر کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: imago/AFLO
2۔ سنگاپور اور جنوبی کوریا
سنگاپور اور جنوبی کوریا مشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان ممالک کے پاسپورٹ پر ویزے کے بغیر 189 ممالک کا سفر کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Gang
3۔ جرمنی اور فرانس
جرمنی اور فرانس کے پاسپورٹ مشترکہ طور پر تیسرے نمبر پر ہیں اور ان پاسپورٹس کے ذریعے 188 ممالک کا سفر کرنے کے لیے ویزا حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. B. Fishman
4۔ ڈنمارک، اٹلی، فن لینڈ، سویڈن
ان چاروں یورپی ممالک کا پاسپورٹ مشترکہ طور پر چوتھے نمبر پر ہے اور ان کے شہری ویزا حاصل کیے بغیر 187 ممالک کا سفر کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Benvenuti
5۔ اسپین اور لکسمبرگ
سپین اور لکسمبرگ مشترکہ طور پر پانچویں نمبر پر ہیں اور ان ممالک کے شہری اپنے پاسپورٹ کی مدد سے دنیا کے 186 ممالک کا سفر ویزا حاصل کیے بغیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: AP
100۔ اریٹریا
اب پانچ کمزور ترین پاسپورٹس پر ایک نظر۔ اریٹریا کا پاسپورٹ 104 ممالک کی درجہ بندی میں 100ویں نمبر پر ہے اور اس ملک کے شہری اپنے پاسپورٹ پر صرف 38 ممالک کا سفر ویزا حاصل کیے بغیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
101۔ یمن
کمزور ترین پاسپورٹوں کی درجہ بندی میں یمنی پاسپورٹ کا نمبر چوتھا ہے۔ یمنی شہریوں کو 37 ممالک کا سفر کرنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔
تصویر: K. A. Banna
102۔ پاکستان
پاکستانی پاسپورٹ اس عالمی درجہ بندی میں تیسرا کمزور ترین پاسپورٹ ہے۔ پاکستانی شہری ویزے کے بغیر صرف 33 ممالک کا رخ کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
103۔ صومالیہ اور شام
صومالیہ اور شام کے شہری اپنے ملک کے پاسپورٹ پر ویزے کے بغیر 32 ممالک کا سفر کر سکتے ہیں اور کمزور ترین پاسپورٹس کی درجہ بندی میں یہ دونوں مشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Amro
104۔ افغانستان اور عراق
عراقی اور افغان پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹ قرار پائے۔ ان ممالک کے شہریوں کو صرف 30 ممالک کا سفر کرنے کے لیے ویزے کے حصول کی ضرورت نہیں ہے۔