امسالہ بکر پرائز سری لنکا کے ادیب شیہان کرونا تیلاکا کے نام
18 اکتوبر 2022
اس سال کا بکر پرائز سری لنکا کے ادیب شیہان کرونا تیلاکا نے اپنے ایک سیاسی طنزیہ ناول کی وجہ سے جیت لیا۔ ’مالی المیدا کے سات چاند‘ نامی یہ ناول سری لنکا کی طویل خانہ جنگی کے موضوع پر سیاسی نوعیت کی ایک طنزیہ تصنیف ہے۔
اشتہار
اس سری لنکن ادیب کو یہ اعزاز پیر 17 اکتوبر کی شام برطانوی دارالحکومت لندن میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں دیا گیا۔ کورنا تیلاکا نے اس تقریب میں بکر پرائز وصول کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا یہ ناول سری لنکا میں بھی پڑھا جائے گا، ''ایک ایسا ملک جو اپنی کہانیوں سے سیکھتا بھی ہے۔‘‘
انعام یافتہ ناول ہے کس بارے میں؟
جنوبی ایشیا کی جزیرہ ریاست سری لنکا میں 1990ء کی دہائی کے حالات کے تناظر میں لکھا گیا یہ ناول ایک ایسے ہم جنس پرست فوٹوگرافر کے بارے میں ہے، جو ملک میں جاری خانہ جنگی کے دوران ایک صبح جاگتا ہے تو مر چکا ہوتا ہے۔
مالی المیدا نامی اس فوٹوگرافر کے پاس وقت کی مہلت کے طور پر صرف سات چاند ہوتے ہیں اور اسی عرصے میں اسے اپنے ان عزیزوں تک پہنچنا ہوتا ہے، جو اس کی وہ تصاویر تلاش کر سکتے ہیں، جن میں المیدا نے سری لنکا میں خانہ جنگی کے دوران کیے جانے والے مظالم کو ریکارڈ کیا ہوتا ہے۔
بُکر پرائز: ادبی روایت تبدیل کرنے والے ادیب
بُکر پرائز کو عالمی ادب کا آسکر ایوارڈ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1997 میں اروندھتی رائے سے سن 2020 میں ڈگلس اسٹوارٹ تک اس پرائز کو جیتنے والوں کا مختصر احوال اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کریں:۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
اروندھتی رائے
بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے کو بُکر پرائز ان کے ناول The God of Small Things پر سن 1997 میں دیا گیا۔ یہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں سن 1960 کی سیاسی افراتفری کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بھارت میں ذات پات کے نظام، مذہبی تنوع اور بہت گنجلک سماجی درجہ بندیوں میں گندھا ہوا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
مائیکل اونڈاچی
سن 1992 کا بُکر پرائز ’دا انگلش پیشنٹ‘ نامی ناول کے مصنف مائیکل اونڈاچی کو دیا گیا۔ اونڈاچی سری لنکن نژاد کینیڈین شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کا ہے اور اس میں چار زندگیوں کا احاطہ کیا گیا جو ایک اطالوی مکان کے مکین تھے۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی اور اسے سن 1996 میں نو آسکر ایوارڈز ملے تھے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/R. Tang
مارگریٹ ایٹ وُوڈ
سن 2000 میں کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ وُوڈ کو ان کی بہترین تخلیق The Handmaid's Tale پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ کئی پرتوں والی ایک کہانی پر مشتمل ہے، جسے ماضی سے حال کو کہانی اور حقیقت کی روایت سے بُنا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Calabrese
ہِلیری مینٹل
سن 2012 میں ناول ’وولف ہال‘ کی مصنفہ ہِلیری مینٹل کو ناول Bring up the Bodies کو بکر پرائز دیا گیا۔ برطانوی ادیبہ وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جو دو مرتبہ بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ ان کے ایک اور ناول ’وولف ہال‘ کو بھی اس پرائز سے نوازا گیا تھا۔ ناول ’برنگ اپ دی باڈیز‘ میں ٹیوڈر خاندان کے بادشاہ ہنری ہشتم کی بیٹے کی خواہش کو سمویا گیا ہے اور یہ ٹیوڈر دور کا تاریخی تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رچرڈ فلانیگن
سن 2014 میں بکر پرائز آسٹریلین ناول نگار رچرڈ فلانیگن کو ان کے ناول The Narrow Road to the Deep North پر دیا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی واقعات پر مبنی ناول ہے اور اس کا منظر نامہ دوسری عالمی جنگ میں تھائی لینڈ برما ڈیتھ ریلوے پر مبنی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک آسٹریلین سرجن کا ہے، جو لوگوں کو بھوک، ہیضہ اور تشدد سے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔
جارج سانڈرز
سن 2017 میں امریکی کہانی کار جارج سانڈرز کے طویل ناول ’لنکن ان دا بارڈو‘ کو اس معتبر انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بُکر پرائز کی جیوری نے اس ناول کو تجرباتی اور اختراعی قرار دیا تھا۔ اس ناول میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی روح اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے جسم کو دیکھنے جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Tang
برنارڈین ایوارسٹو
سن 2019 میں برطانوی ادیبہ برنارڈین ایوارسٹو کو ان کے ناول Girl, Woman, Other کی وجہ سے بکر پرائز دیا گیا۔ وہ پہلی سیاہ فام ادیبہ ہیں جو بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی تھیں۔ اس ناول میں برطانیہ پہنچنے والے بارہ افراد کے مختلف نسلوں اور سماجی طبقات سے متعلق تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ڈگلس اسٹوارٹ
سن 2020 میں اسکاٹش نژاد امریکی ادیب ڈگلس اسٹوارٹ کو ان کے اولین ناول Shuggie Bain پر بُکر پرائز دیا گیا۔ اس ناول کو لکھنے میں اسٹوارٹ نے دس برس صرف کیے اور اس کا مسودہ بتیس مرتبہ مختلف اشاعتی اداروں نے مسترد کیا تھا۔ یہ ناول کسی حد تک ایک خود نوشت ہے اور اس میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک ہم جنس پسند کی جدوجہد کو سمویا گیا ہے۔
تصویر: Grove/AP/picture alliance
Damon Galgut - 'The Promise' (2021)
ڈیمن گالگوٹ
سن 2021 میں جنوبی افریقی ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ناول The Promise پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ وہ قبل ازیں دو مرتبہ شارٹ لسٹ بھی کیے گئے تھے۔ اس ناول میں گالگوٹ نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسے سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کا احوال بیان کیا ہے، جو اپنی والدہ سے اس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ اسے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیت زمین پر ایک مکان دینا چاہیے۔
تصویر: David Parry/AP Photo/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
’مابعد الطبیعیاتی تھرلر‘
امسالہ بکر پرائز کی جیوری کے سربراہ نیل میکگریگر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرونا تیلاکا کا یہ ناول ایک ''مابعد الطبیعیاتی تھرلر ہے، جو بعد از حیات کی تاریکی کا اس طرح احاطہ کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف تخلیقی ادب کی مختلف اقسام کی حدود بلکہ زندگی اور موت، جسم اور روح حتیٰ کہ مشرق و مغرب کے درمیان سرحدیں بھی تحلیل ہوتی جاتی ہیں۔‘‘
نیل میکگریگر کے مطابق یہ ادب پارہ ایک بھرپور 'فلسفیانہ کھوج‘ بھی ہے اور اسے سال 2022ء کے لیے بکر پرائز کا حق دار اس لیے ٹھہرایا گیا کہ اس میں مصنف نے اپنی تخلیقی 'سوچ، اہلیت اور حوصلے کا بڑی شفافیت اور ہمت سے بہترین اظہار‘ کیا ہے۔
کرونا تیلاکا کو یہ ایوارڈ برطانوی ملکہ کامیلا نے دیا
شیہان کرونا تیلاکا کو لندن میں منعقدہ تقریب میں یہ اعزاز برطانوی ملکہ کامیلا نے دیا۔ کرونا تیلاکا کی یہ کتاب برطانیہ کے Sort of Books نامی ایک آزاد اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے۔ انہیں بکر پرائز کے ساتھ 50 ہزار پاؤنڈ (قریب 57 ہزار ڈالر) کا نقد انعام بھی دیا گیا۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
یہ اعزاز وصول کرنے کے بعد کرونا تیلاکا نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی یہ تصنیف کتابوں کی دکانوں اور کتب خانوں میں ''تخیل کے شعبے میں رکھی جائے گی، نہ کہ اسے غلطی سے حقیقت پسندی یا سیاسی طنز نگاری سمجھ لیا جائے۔‘‘
اشتہار
شیہان کرونا تیلاکا کون ہیں؟
شیہان کرونا تیلاکا 1975ء میں جنوب مغربی سری لنکا کے شہر گالے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی پرورش ملکی دارالحکومت کولمبو میں ہوئی۔ وہ کافی عرصے سے بہت سے بین الاقوامی جرائد اور رسائل کے لیے لکھتے ہیں اور سنگاپور، ایمسٹرڈم اور لندن میں قیام کے دوران وہاں کام بھی کرتے رہے ہیں۔
اب کرونا تیلاکا دوبارہ کولمبو ہی میں رہتے ہیں اور اپنے پسندیدہ ترین ادیبوں کے طور پر کرٹ وونگٹ، نک ہارنبی اور ولیم گولڈ مین کا خاص طور پر تذکرہ کرتے ہیں۔
اس سری لنکن ادیب کو پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ادبی حلقوں کی توجہ اس وقت ملی تھی، جب 2011ء میں ان کا اولین ناول 'چائنہ مین‘ شائع ہوا تھا۔
بکر پرائز اور انٹرنیشنل بکر پرائز
اس سال کے بکر پرائز کے لیے جن دیگر ادیبوں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے، ان میں برطانیہ کے ایلن گارنر، زمبابوے کی نووائلٹ بولاوائیو اور امریکی مصنف پیرسیوال ایویرٹ بھی شامل تھے۔ بکر پرائز ایسی ادبی تخلیقات پر دیا جاتا ہے، جو بنیادی طور پر انگریزی زبان میں لکھی گئی ہوں۔
قبل ازیں اسی سال بھارتی مصنفہ گیتانجلی شری نے اپنے ہندی زبان میں لکھے گئے ناول 'ریت کا مقبرہ‘ کی وجہ سے انٹرنیشنل بکر پرائز جیتا تھا۔ یہ بھارت میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کسی بھی زبان میں لکھا گیا ایسا پہلا ناول تھا، جسے انٹرنیشنل بکر پرائز کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔
اس اعزاز کے لیے گیتانجلی شری سمیت پانچ مصنفین کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور وہ سب کی سب خواتین تھیں۔ انٹرنیشنل بکر پرائز ایسی ادبی تخلیقات پر دیا جاتا ہے، جن کے انگریزی زبان سمیت بین الاقوامی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہوں۔
م م / ا ب ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
جرمن بُک پرائز جیتنے والے گیارہ نامور مصنفین
جرمن زبان میں لکھنے والے یہ 11 مصنفین جرمنی کا مؤقر ترین ادبی انعام ’دی جرمن بُک پرائز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ اعزاز فرینکفرٹ کتاب میلے کے دوران جرمن ناشرین اور کتب فروشوں کی ملکی تنظیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/olly
فرانک وِٹسل
ان کے ناول The Invention of the Red Army Faction by a Manic-Depressive Teenager in the Summer of 1969 پر انہیں 2015ء کا جرمن بُک پرائز دیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں پیر 12 اکتوبر کو دیا گیا۔ ان کے ناول میں مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی سرد جنگ کے دور کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گھریلو تشدد اور ماضی سے نبرد آزما ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
لُٹس زائلر
گزشتہ برس لُٹس زائلر کو ان کے ناول ’کرُوسو‘ پر بُک پرائز دیا گیا۔ 2014ء میں یہ ناول دیوار برلن کے انہدام کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس کتاب میں آزادی کی تلاش اور سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے فرار کی کوششوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
ٹیریزیا مورا
مورا کی تصنیف ’دس اُنگیہوئر‘ یا ’دا مونسٹر‘ نے 2013ء کا بُک پرائز جیتا تھا۔ ٹیریزیا مورا ڈائری اور سفرنامے کی شکل میں لکھتی ہیں، جنہیں ایک گہری سیاہ لکیر سے الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق اور ڈپریشن کے حوالے سے طبی خاکے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اُرزُولا کریشَیل
2012ء کا بُک پرائز جیتنے والی اُرزُولا کریشَیل نے جج رچرڈ کورنِٹسر کی زندگی کو اپنے ناول ’ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کا موضوع بنایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یہودی جج کیوبا سے جلاوطنی ختم کر کے جرمنی واپس لوٹا کیونکہ وہ جرمنی میں دوبارہ جج بننا چاہتا تھا۔ مصنفہ نے اپنے اس ناول کے لیے 10 برس تک تحقیق کی۔
تصویر: dapd
اوئگن رُوگے
اوئگن رُوگے کے 2011ء میں لکھے گئے ناول ’اِن ٹائمز آف فےڈِنگ لائٹ‘ کو بُک پرائز دیا گیا۔ اس کتاب میں مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1950ء کی دہائی سے 1989ء میں جرمنی کے اتحاد اور نئی صدی کے آغاز تک کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
میلِنڈا ناج ابونجی
2010ء کا بُک پرائز جیتنے والی ابونجی کی کتاب ’ٹاؤبن فلِیگن آؤف‘ یا ’فلائی اوے، پیجن‘ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تنازعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کی کہانی کو یوگوسلاویہ کے تنازعے اور سربیا کے صوبے ووج وَودینا میں ہنگیرین نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Eisele
کیتھرین شمِٹ
کیتھرین شمِٹ کی 2009ء میں لکھی جانے والی کتاب ’یو آر ناٹ گوئنگ ٹو ڈائی‘ جرمنی کے اتحاد کے دور سے متعلق ہے جب ایک خاتون کومہ سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی یادیں اور بولنے کی صلاحیت واپس حاصل کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
اُووے ٹَیلکامپ
2008ء میں جیوری نے بُک پرائز کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے اتحاد سے قبل کے آخری سالوں سے متعلق ایک ناول ’ڈئر ٹرُم‘ یا ’دا ٹاور‘ کے مصنف کو دیا۔ یہ ناول ڈریسڈن میں رہنے والے ایک خاندان کو درپیش واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ناول پر 2012ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
جُولیا فرانک
2007ء میں بُک پرائز حاصل کرنے والے ناول کا نام Die Mittagsfrau ہے جسے انگریزی میں ’دا بلائنڈ سائیڈ آف دا ہارٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس ناول میں جولیا فرانک نے دو عالمی جنگوں کے دوران کے عرصے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ ناول 34 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Guillem Lopez
کیتھرینا ہاکر
2006ء کا بُک پرائز جیتنے والی کیتھرینا ہاکر نے جوان لوگوں کی کہانیاں Die Habenichtse یعنی ’دا ہیو ناٹس‘ The Have-Nots میں بیان کی ہیں۔ 30 برس کے لگ بھگ عمر کے ایسے لوگوں کی کہانیاں جو اور تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر اپنے آپ کو نہیں۔ ان لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، ان کی اقدار کیا ہیں اور انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ اس ناول کے بنیادی سوالات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.Elsner
آرنو گائیگر
2005ء میں سب سے پہلا جرمن بُک پرائز آرنو گائیگر کو ان کے ناول ’اَیس گیہت اُنس گُٹ‘ یعنی ’وی آر ڈوئنگ وَیل‘ پر دیا گیا۔ اس ناول کی کہانی ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں کے گرد گھومتی ہے۔