1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امسالہ طب کا نوبل انعام دو انقلابی سائنسدانوں کے نام

1 اکتوبر 2018

امسالہ طب کا نوبل انعام کینسر کے خلاف تھراپی کا ایک نیا طریقہ دریافت کرنے والے دو سائنسدانوں کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کامیابی کو طب کی دنیا میں ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔

Nobelpreis für Medizin 2018 Tasuku Honjo James Allison
تصویر: AFP/Getty Images/J. Nackstrand

یکم اکتوبر سے سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہولم میں نوبل انعامات دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ طب کے شعبے میں امسالہ نوبل انعام امریکی سائنسدان جیمز ایلسن اور جاپانی محقق ٹاسوکو ہونیو کو دیا گیا ہے۔ ان دونوں سائنسدانوں نے کینسر کے مرض کے خلاف تھراپی کا ایک نیا طریقہ علاج دریافت کیا ہے۔

نوبل انعام کو طب کی دنیا کا سب سے بڑا انعام خیال کیا جاتا ہے اور رواں برس ان دونوں سائنسدانوں کو اس انعام کے ساتھ ساتھ آٹھ لاکھ ستر ہزار یورو کی نقد رقم بھی دی جائے گی۔ نوبل جیوری کی طرف سے اعلان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان دونوں سائنسدانوں کی تحقیق سے کینسر کے خلاف جنگ میں ایک سنگ میل عبور کر لیا گیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Vergara

کینسر کا علاج کیمیو تھراپی سے کیا جاتا ہے اور اس تھراپی کے ضمنی اثرات تباہ کن ہیں۔ ان دو سائنسدانوں کے نئے طریقہ علاج میں ان ضمنی اثرات کو انتہائی محدود بنا دیا گیا ہے۔ ابھی تک رائج کیمیوتھراپی کے دوران کینسر کے خلیات کے ساتھ ساتھ عام خلیات بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے متاثرہ مریض پر انتہائی زہریلے اثرات پڑتے ہیں اور زیر علاج مریض انتہائی کمزور ہو جاتا ہے۔

نوبل انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں کی امیون تھراپی میں مدافعتی نظام کے ذریعے ہی کینسر کے خلیات کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جیمز ایلسن اور ٹاسوکو ہونیو نے جسم کے اندر موجود مدافعتی نظام میں دو ایسی رکاوٹوں (بریکس) کا پتا چلایا تھا، جن کو ختم کرنے سے مدافعتی نظام کینسر کے خلیات کے خلاف تیزی اور موثر طریقے سے حملہ آور ہو جاتا ہے۔

امریکی سائنسدان نے سن انیس سو پچانوے میں پہلی مرتبہ مدافعتی نظام میں موجود CTLA-4 نامی ایک رکاوٹ کا پتا چلایا تھا۔ اسی وقت جاپانی سائنسدان نے PD-1 نامی ایک دوسری رکاوٹ کا پتا چلا لیا تھا۔ ان دونوں بریکس (رکاوٹوں) کی شناخت کے بعد سائنسدان ان دونوں بریکس کو توڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔ یہ بریکس ٹوٹ جائیں تو ٹی سیلز (سفید خون کے خلیے) کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

امریکن کینسر سوسائٹی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس وقت دنیا بھر کی تقریبا آٹھ سو کلینکس میں اس نئے طریقے سے کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے جبکہ جون تک تیس ادویات کی تیاری جاری تھی۔ ادویات سازی کی صنعت کی طرف سے بھی اس فیلڈ میں بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

ا ا / ع ا ( نیوز ایجنسیاں)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں