1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن بات چیت پر آمادگی، طالبان اور القاعدہ میں کشیدگی

21 فروری 2012

افغان طالبان کی امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کی وجہ سے اب کابل حکومت کے مخالف عسکریت پسندوں اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

تصویر: dapd

فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی نے پشاور سے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کے لیے حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی ڈرون طیاروں کی طرف سے اپنے کارکنوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملوں کے نتیجے میں یہ نیٹ ورک واضح طور پر کمزور ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس مئی میں ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور اب اس نیٹ ورک کو دستیاب مالی وسائل بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

جب سے افغان طالبان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ملک میں دس سال سے جاری جنگ کے خاتمے میں مدد دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ قطر میں مجوزہ بات چیت کے حق میں ہیں، تب سے القاعدہ کو شدت سے محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ مغربی دنیا کے ساتھ اپنی جنگ میں تنہا رہ گئی ہے۔ القاعدہ کا ابھی تک یہی مؤقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات غداری کا دوسرا نام ہے۔

تصویر: AP

اس بارے میں افغان طالبان کے ایک نمائندے نے اے ایف پی کو بتایا، ’القاعدہ کی طرف سے ہم پر الزام لگائے جا رہے ہیں۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم انہیں تنہا کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تم بہت مشکل میں تھے تو ہم نے تمھاری مدد کی تھی‘۔

دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے قربت رکھنے والے ایک ذریعے نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے فرانسیسی خبر ایجنسی کو بتایا، ’ہم دوحہ مذاکراتی عمل سے خوش نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں جنگ جاری رہے‘۔

تصویر: AP

1996ء میں جب افغانستان میں طالبان اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے القاعدہ کو افغانستان میں اپنے اڈے قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس میں افغان معاشرے کی مہمان نوازی اور کسی کے ساتھ اتحاد سے متعلق ان روایات نے بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا جنہوں نے 1980 کے عشرے میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف طالبان اور القاعدہ کو ایک دوسرے کا اتحادی بنا دیا تھا۔

لیکن یہ اتحاد طالبان کو بہت مہنگا پڑا۔ انہوں نے امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کو واشنگٹن کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو امریکہ نے افغانستان پر فوجی چڑھائی کر دی اور طالبان کی حکومت چند ہفتوں میں ختم ہو گئی تھی۔

اسامہ بن لادنتصویر: DW / AP

امریکہ نے ماضی قریب میں طالبان کے ساتھ قیام امن کے لیے شرط یہ رکھی تھی کہ طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے تمام رابطے منقطع کریں۔ ساتھ ہی سعودی عرب نے بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان اور امریکہ کے مابین مکالمت میں اپنی شمولیت کو اس بات سے مشروط کیا تھا کہ طالبان القاعدہ کا ساتھ چھوڑ دیں۔

اس پس منظر میں افغان طالبان کے رہنما ملا عمر نے جب امریکہ کے ساتھ قطر میں امن مذاکرات میں شمولیت کی حامی بھری تو یہ فیصلہ ایک طرح سے طالبان کا راستہ القاعدہ کے راستے سے علیحدہ ہو جانے کا اعلان بھی تھا۔

اے ایف پی کے مطابق کئی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں اس وقت القاعدہ کے غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں جبکہ افغانستان میں ایسے غیر ملکی عسکریت پسندوں کی تعداد محض چند درجن بنتی ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: حماد کیانی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں