’امن بذریعہ خوشحالی‘، فلسطینیوں کے لیے یورپی امداد
26 اکتوبر 2012یورپی ممالک نے فلسطینیوں کو یہ پیشکش تھی کہ اگر وہ مسلح جدوجہد ترک کر دیں تو بدلے میں اُن کی ریاست کی تعمیر کے لیے مالی امداد فراہم کی جائے گی۔ فلسطینیوں کو پتہ چلنا چاہیے تھا کہ مسلح جدوجہد کے خاتمے سے اُنہیں اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ سوچا یہ گیا تھا کہ جس کسی بھی مالی حالت اچھی ہو گی، اُسے جنگ سے دلچسپی نہیں ہو گی۔
مشرق وُسطیٰ کے امور کی ماہر مارگریٹ یوہانسن فلسطینیوں کے لیے یورپی امداد کو ’خوشحالی کے ذریعے امن‘ کے اصول کا نام دیتی ہیں، جو 1990ء کے عشرے کے اوائل ہی میں سامنے آ گیا تھا۔
1993ء میں اسرائیلی وزیر اعظم یتسحاک رابین اور فلسطینی قائد یاسر عرفات نے اوسلو میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کی بنیاد پر ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آنا تھا۔ دریں اثناء یہ دونوں رہنما انتقال کر چکے ہیں اور فلسطینی اپنی آزاد ریاست کی منزل سے اور بھی دور نظر آتے ہیں۔
ہیمبرگ یونیورسٹی میں امن پر تحقیق اور سلامتی کی پالیسیوں کے ادارے سے وابستہ مارگریٹ یوہانسن کہتی ہیں کہ امن عمل کا نتیجہ فلسطینیوں کے معاشی زوال کی صورت میں برآمد ہوا اور اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے مابین اقتصادی تعلقات بہتر ہونے کی بجائے خراب تر ہوتے چلے گئے۔
غزہ پٹی میں، جہاں حماس کی حکمرانی ہے، حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں۔ وہاں زیادہ تر اشیائے ضرورت مصر کی زیر زمین سرنگوں کے راستے پہنچتی ہیں۔ صنعت نہ ہونے کے برابر ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہیں۔
غزہ کے برعکس مغربی اردن میں، جہاں فتح کی عملداری ہے، اچھی خاصی اقتصادی سرگرمی نظر آتی ہے لیکن اُس میں پائیداری نہیں ہے۔ وہاں بھی باہر سے جانے والا پیسہ نہ ہو تو کاروبار زندگی رُک جائے۔ افراد ہوں یا ساز و سامان، اسرائیلی چیک پوائنٹس پر جگہ جگہ روک کر اُن کی چیکنگ کی جاتی ہے، ایسے میں باہر سے کوئی بھی وہاں پیسہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یورپی یونین کے فراہم کردہ مالی وسائل کی مدد سے فلسطینی علاقوں میں انتخابات منظم کیے جا سکے ہیں، پانی صاف کرنے کے مراکز قائم ہوئے ہیں اور مغربی اردن میں پولیس تشکیل دی جا سکی ہے۔ البتہ مارگریٹ یوہانسن کے مطابق یورپی یونین نے ایک الگ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے زیادہ کوششیں نہیں کی ہیں۔
امدادی تنظیم میڈیکو انٹرنیشنل کے شعبہ مشرقِ وُسطیٰ کے سفریر کوہن کہتے ہیں:’’یورپی یونین اسرائیلی قبضے کو نہ تو ختم کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہے‘‘۔
یوہانسن کہتی ہیں کہ یورپی یونین کی ساری پالیسیوں کا مرکز و محور حماس کو الگ تھلگ اور تنہا کرنا ہے:’’یہ ایک طرح کا فوبیا ہے، جس کی وجہ سے یورپی ممالک کوئی عملیت پسندانہ اور مستقبل کی سمت لے کر جانے والی حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ مَیں اسے ایک غلطی سمجھتی ہوں۔ فلسطینیوں کی تقسیم نقصان دہ ہے۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ فلسطین کے دونوں حصوں کو پھر سے اکٹھا کیا جائے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ یورپی یونین پھر سے حماس کے ساتھ مل کر کام کرے۔‘‘
واضح رہے کہ غزہ میں حماس کے برسراقتدار آنے کے بعد سے یورپی یونین کی جانب سے اس علاقے کے لیے امداد بند کی جا چکی ہے۔ ویسے بھی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے ہاں امریکا کے مقابلے میں یورپی یونین کا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوہانسن کہتی ہیں:’’یورپی یونین کے ہاں صبر بہت ہے۔ اُس کے خیال میں جو کچھ وہ کر رہی ہے، کبھی نہ کبھی اُس کے ثمرات ضرور حاصل ہوں گے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ یورپی یونین جس طرح سے ساری توجہ ترقیاتی امداد پر مرکوز کیے ہوئے ہے اور سیاسی پہلو کو سرے سے نظر انداز کر رہی ہے، یہ رویہ بہت ہی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو گا۔‘‘
N.Naumann/aa/km