امن جرگہ راکٹ حملوں کی زد میں
2 جون 2010سرکاری ذرائع کے مطابق کابل سے نزدیک اُس مقام پر جہاں اس روایتی جرگے کے شرکاء کے لئے بہت بڑا خیمہ لگایا گیا تھا تین راکٹ برسائے گئے۔ سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باوجود تین مسلحہ برقع پوش نے سلامتی اہلکاروں کی طرف سے بنائے گئے حفاظتی گھیرے کو توڑتے ہوئے جرگہ کی طرف جانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ ان جنگجوؤں کا تصادم ہوا۔ جرگہ کے منتظم اعلیٰ فاروق وردک نے اس جھڑپ میں دو عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ تیسرے کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ فاروق وردک نے جرگہ میں شریک مندوبین سے کہا کہ حالات قابو میں ہیں۔ تاہم اس واقعے کے بعد بھی وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔
حملے کےوقت جرگے میں افغان صدر حامد کرزئی سمیت تقریباً 1600 افغان لیڈر اور قبائلی اکابرین موجود تھے۔ پہلا دھماکہ عین اُس وقت سنائی دیا جب صدر کرزئی نے ملک سے طالبان عناصر کو پسپا کرنے اور انہیں مکمل طور پر غیر مسلحہ کرنے سے متعلق اپنے حوصلہ مند امن منصوبے سے آگاہ کرنا شروع ہی کیا تھا۔ یہ دھماکہ کابل سے مغرب کی طرف ایک کھلے میدان میں گرنے والے راکٹ سے ہوا۔ اس موقع پر صدر کرزئی نے جرگہ کے شرکاء کو تسلی دیتے ہوئےکہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ حامد کرزئی نے تمام مندوبین سے بیٹھ جانے کوکہا کیونکہ ان میں سے اکثر حراساں نظر آ رہے تھے اور وہ جرگے کے خیمے سے نکلنا چاہتے تھے۔ بعد از ایں افغان صدر نے اپنی تقریر کو مختصرکرتے ہوئے حفاظتی قافلے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق متعدد ہیلی کاپٹرز صدر کرزئی کے قافلے کی حفاظت کے لئے فضا میں گردش کرتے دکھائی دئے۔
کابل میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ نگار ہارون میر نے ایک بیان میں کہا کہ ’ آج جرگہ کے انعقاد کے موقع پر ہونے والا یہ حملہ دراصل کابل میں اس سال منعقد ہونے والی مجوزہ کانفرنس کے لئے ایک اشارہ ہے‘۔ یاد رہے کہ جولائی کی 20 تاریخ کوافغانستان میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد ہونا ہے۔ تجزیہ نگار ہارون میر کےبقول کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغربی ممالک کے کتنے مندوبین ایسے خطرناک حالات میں کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ امن جرگہ کئی صدیوں سے افغانستان کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ تاہم اس بار کے اس اجلاس میں طالبان باغیوں کے نمائندوں کو دعوت نہ دینا ایک پریشان کن بات سمجھی جا رہی ہے۔
رپورٹ : کشور مصطفی
ادارت : عدنان اسحاق