امن مذاکرات: افغان حکومت نے طالبان کی شرائط رد کر دیں
25 جنوری 2016کابل سے پیر پچیس جنوری کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق قطر میں مجوزہ مذاکرات میں شرکت کے لیے افغان طالبان نے جو پیشگی شرائط رکھی تھیں، ان میں یہ مطالبات بھی شامل تھے کہ طالبان کا ایک باقاعدہ تسلیم شدہ دفتر ہونا چاہیے، اس شدت پسند گروہ کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے خارج کیا جائے، طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے اور افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی دستے مکمل طور پر نکل جائیں۔
خلیجی عرب ریاست قطر میں افغان طالبان کا ایک رابطہ دفتر 2013ء میں کھولا گیا تھا لیکن پھر اسے کابل میں ملکی حکومت کی شکایت پر بند کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں افغانستان کی ملکی حکومت کا موقف یہ تھا کہ ایسا سمجھا جانا عین یقینی تھا کہ جیسے طالبان کا یہ دفتر افغانستان کا کوئی قومی سفارتی مشن ہو۔
کابل حکومت نے ملک میں طالبان کی مسلح بغاوت اور عسکریت پسندی کے مسئلے کے حل کے لیے ایک اعلیٰ امن کونسل قائم کر رکھی ہے۔ اس اعلیٰ امن کونسل کے ایک رکن امین الدین مظفری نے آج طالبان کی امن مذاکرات کے سلسلے میں رکھی گئی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی شرائط تو اس وقت رکھی جانا چاہییں، جب دو فریق عملاﹰ امن بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہوں، نہ کہ اس سے پہلے ہی۔‘‘
افغان طالبان کی طرف سے یہ شرائط قطر میں ہونے والی اس دو روزہ کانفرنس میں پیش کی گئی تھیں، جس کا اہتمام اختتام ہفتہ پر پگواش کونسل نے کیا تھا۔ یہ کونسل ایک ایسا غیر حکومتی تحقیقی اور مکالماتی گروپ ہے، جو افغان تنازعے کے مختلف فریقوں کو ایک جگہ پر جمع کرنے کے لیے ہر سال ایسی کانفرنسوں کا انعقاد کرتا ہے۔
قطر میں ہونے والی کانفرنس کے بارے میں افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل اور ملکی چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس سالانہ کانفرنس میں ’کابل حکومت کی طرف سے کوئی بھی شرکت نہیں کر رہا‘۔ اسی طرح کے موقف کا اظہار ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے افغان صدارتی محل کے ذرائع نے بھی کیا۔
اس بارے میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان جاوید فیصل نے آج کہا، ’’افغانستان میں قیام امن کے حصول کا بہترین راستہ وہ چار ملکی کانفرنس ہے، جس کا مقصد امن کا روڈ میپ ہے۔ اس گروپ میں افغانستان، پاکستان ، امریکا اور چین شامل ہیں اور یہ گروپ گزشتہ برس دسمبر میں تشکیل دیا گیا تھا۔