امن مذاکرات امریکی دباؤ سے شروع نہیں کیے، شمالی کوریا
6 مئی 2018
شمالی کوریا نے خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن یہ دعویٰ نہ کرے کہ یہ کمیونسٹ ریاست امریکی دباؤ کی وجہ سے امن مذاکرات کا حصہ بننے پر مجبور ہوئی ہے، ورنہ جزیرہ نما کوریا پر حالات دوبارہ کشیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اتوار کے دن شمالی کوریا کے حوالے سے بتایا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی وجہ امریکی پابندیاں یا عسکری دھمکیاں نہیں ہیں۔ پیونگ یانگ حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک تازہ بیان میں واشنگٹن کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ اس طرح کے ’اشتعال انگیز‘ بیانات دینا بند نہیں کرے گا تو امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس کمیونسٹ ملک کی وزرات خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ امریکا ایسے بیان دے کر دانستہ طور پر شمالی کوریا کو اشتعال دلا رہا ہے کہ اگر اس نے جوہری پروگرام مکمل طور پر ترک نہ کیا تو اس پر عائد عالمی پابندیاں ختم نہیں کی جائیں گی۔
پیونگ یانگ کی طرف سے یہ بیانات ایک ایسے وقت میں جاری کیے گئے ہیں، جب جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے اور شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن آئندہ کچھ ہفتوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات کرنے والے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق یہ ملاقات مئی کے اواخر یا جون کے اوائل میں ہو سکتی ہے۔
امریکی صدر اور شمالی کوریائی رہنماؤں کے مابین یہ ملاقات اپنی نوعیت کا پہلا براہ راست رابطہ ہو گا۔ گزشتہ ماہ ہی شمالی اور جنوبی کوریائی ریاستوں کے رہنماؤں نے ایک تاریخی سمٹ کی تھی، جس میں شمالی کوریا نے اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو منجمد کرنے کا عہد کیا تھا۔ شمالی کوریائی رہنما اس سمٹ میں شرکت کی خاطر پہلی مرتبہ جنوبی کوریا بھی گئے تھے۔
شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی KCNA نے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ’عوامی رائے عامہ میں تاثر دینے‘ کی کوشش میں ہے کہ پیونگ یانگ کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرامز کو ترک کرنے کی وجہ امریکی پابندیاں اور دباؤ بنے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جزیرہ نما کوریا پر عسکری سازوسامان کی تنصیب سے امریکا موجودہ دوستانہ ماحول کو خراب کر سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ شمالی کوریا پر عائد پابندیاں ختم نہیں کریں گے اور اس پر دباؤ دیتے رہیں گے کیونکہ یہی وہ طریقے ہیں، جن کی وجہ سے شمالی کوریا مصالحت کی طرف بڑھا ہے۔ امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں شمالی کوریا کے میزائل اور جوہری پروگرامز کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس کمیونسٹ ملک پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔