امن مذاکرات کا دوسرا دور، اسرائیل سے 26 فلسطینی قیدی رہا
14 اگست 2013قیدیوں کی رہائی کے اس اسرائیلی اقدام کا مقصد امریکی ثالثی میں شروع ہونے والے ان امن مذاکرات کو پٹری پر بحال رکھنا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کئی برسوں تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی سخت سفارتی کوششوں کے بعد دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔ تاہم گزشتہ ویک اینڈ پر اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے فیصلے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
ماضی میں مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر ہی کے فیصلے کے بعد یہ امن مذاکرات معطل ہوئے تھے، تاہم اس مرتبہ فلسطینی اتھارٹی نے نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر کڑی تنقید تو کی ہے لیکن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
فریقین کی جانب سے مذاکرات کار آج بدھ 14 اگست کی سہ پہر یروشلم میں ملاقات کریں گے۔ گزشتہ ماہ اس سلسلے میں مذاکرات کا پہلا دور واشنگٹن میں ہوا تھا۔ ان مذاکرات کے سلسلے میں آئندہ ملاقاتیں جیریکو اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ہونا ہیں۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے فریقین کے لیے نو ماہ میں ایک ڈیل طے کرنے کا ہدف دیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دو ریاستی حل کے لیے جان کیری کی سفارتی کوششوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے تاہم نئی یہودی بستیوں کی تعمیر ممکنہ طور پر مستقبل کی فلسطینی ریاست کے علاقوں میں کرنے کے اعلان کے بعد فریقین کے درمیان کشیدگی کی فضا قائم ہو گئی ہے۔
ان مذاکرات کے لیے پراعتماد فضا بنانے کے لیے اسرائیل نے اپنی جیلوں میں قید 104 قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ بدھ کے روز اس سلسلے میں پہلے 26 قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، جن میں سے 12 مغربی کنارے پہنچے ہیں جب کہ دیگر قیدی غزہ پٹی منتقل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں، جنہیں اسرائیل میں خونریز حملے کرنے کے الزامات میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان قیدیوں کی رہائی مقامی سطح پر فلسطینی صدر محمد عباس کی حمایت میں اضافے کا باعث بنے گی، تاہم مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر مقامی سطح پر عباس انتظامیہ کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔ بدھ کے روز قیدیوں کے رملہ پہنچنے پر ان قیدیوں کے رشتہ داروں اور احباب نے فلسطینی پرچم کے ساتھ مارچ کیا۔