امن کا امسالہ نوبل انعام فلپائن اور روس کے دو صحافیوں کے نام
8 اکتوبر 2021
سال رواں کا امن کا نوبل انعام فلپائن کی ماریا ریسا اور روس کے دیمتری مراتوف کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان دونوں صحافیوں کے لیے مشترکہ طور پر اس اعزاز کا فیصلہ آزادی اظہار کے لیے ان کی انتھک جدوجہد کی وجہ سے کیا گیا۔
اشتہار
ناروے کے دارالحکومکت اوسلو میں جمعہ آٹھ اکتوبر کے روز نوبل پیس پرائز کمیٹی کی طرف سے کیے گئے اعلان کے مطابق ان دونوں شخصیات نے اپنے اپنے معاشروں میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے بےمثال کوششیں کیں۔
نوبل امن انعام کی حق دار شخصیت، شخصیات یا تنظیم کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کی سربراہ بیرِٹ رائس اینڈرسن نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا، ''آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور حقائق کی بنیاد پر کی جانے والی صحافت انسانوں کو طاقت کے غلط استعمال، جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بچاتی ہے۔‘‘
رائس اینڈرسن نے اوسلو میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''آج کے دور میں اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت کے بغیر اقوام کے مابین اخوت کی کامیاب ترویج، ہتھیاروں میں کمی کا عمل اور ایک بہتر دنیا کی تشکیل سب کچھ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
ماریا ریسا کی جدوجہد
سال 2021ء کے امن کے نوبل انعام کی حق دار قرار دی گئی فلپائن کی خاتون صحافی ماریا ریسا 2012ء میں شروع کی گئی نیوز ویب سائٹ رَیپلر (Rappler) کی شریک بانی ہیں۔
انہیں اس اعزاز کے لیے منتخب کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے نوبل امن انعام کمیٹی کی طرف سے کہا گیا، ''اس نیوز ویب سائٹ نے اپنی توجہ بڑے تنقیدی انداز میں صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کی حکومت کی فلپائن میں منشیات کے خلاف بہت ہلاکت خیز اور انتہائی متنازعہ مہم پر مرکوز رکھی۔‘‘
اس کے علاوہ ماریا ریسا اور ان کی نیوز ویب سائٹ رَیپلر نے اس امر کے دستاویزی ثبوت بھی جمع کیے کہ کس طرح اس حکومتی مہم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں اور مخالفین کو ہراساں کرنے کے علاوہ عوامی رائے پر بہت نپے تلے انداز میں اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
اشتہار
دیمیتری مراتوف کی منفرد خدمات
امسالہ نوبل امن انعام کی حق دار قرار دی گئی دوسری شخصیت روسی صحافی دیمیتری مراتوف کی ہے۔ انہوں نے چند دیگر افراد کے ساتھ مل کر 1993ء میں روس میں ایک آزاد اور غیر جانبدار اخبار 'نووایا گازیٹا‘ کی بنیاد رکھی تھی۔
ملالہ کی جدوجہد: نوبل انعام اور دیگر اعزازات
تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی اور بھارتی سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی نے مشترکہ طور پر نوبل امن انعام وصول کر لیا ہے۔ ملالہ اس سے قبل بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات وصول کر چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
نوبل امن انعام اور بہترین لمحات
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو دس دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مشترکہ طور پر نوبل امن انعام دے دیا گیا۔ اس سے قبل ملالہ اور ستیارتھی نے کہا تھا کہ وہ دونوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت
نوبل انعام کی تاریخ میں سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بن گئی ہیں۔ نوبل انعامات دینے کا سلسلہ 1901ء میں شروع ہوا تھا۔ ملالہ کو گزشتہ برس بھی اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا مگر انہیں اس اعزاز کا حقدار اس سال ٹھہرایا گیا۔ نوبل کمیٹی کے مطابق ملالہ اور ستیارتھی کو یہ انعام بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/C. Poppe
ملالہ کے لیے سخاروف انعام
سولہ سالہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو بدھ بیس نومبر کو شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان نے انسانی حقوق کے سخاروف انعام سے نوازا۔ اُسے یہ انعام لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اُس کی اُس جرأت مندانہ جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا ہے، جس کے لیے اُس کی جان بھی داؤ پر لگ گئی تھی۔ 9 اکتوبر 2012ء کو طالبان نے وادیء سوات میں ملالہ کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters
ملالہ یورپی پارلیمان میں
ملالہ یوسف زئی بیس نومبر بدھ کے روز شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلز کے ہاتھوں انسانی حقوق کا انعام ’سخاروف پرائز‘ وصول کر رہی ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ روسی منحرف آندرے سخاروف سے موسوم پچاس ہزار یورو مالیت کا یہ انعام یورپی یونین کا اہم ترین اعزاز گردانا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters
اعلیٰ قدر و قیمت کا حامل انعام
یورپی پارلیمان سن 1988ء سے سخاروف پرائز دیتی چلی آ رہی ہے۔ یہ انعام ان شخصیات کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور فکری آزادی کے لیے جدوجہد کی ہو۔ اب تک یہ انعام جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور میانمار کی آنگ سان سُوچی جیسی شخصیات کے حصے میں آ چکا ہے۔
تصویر: Reuters
عزم و حوصلے کی علامت
ملالہ کے برمنگھم میں کئی آپریشنز ہوئے۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد وہ اسی برطانوی شہر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ طالبان کی فائرنگ بھی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق کے سلسلے میں ملالہ کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکی۔ ملالہ کی بڑھتی مقبولیت اور شہرت اُس کے پیغام کو اور زیادہ نمایاں کرتی چلی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters
ایک لڑکی پوری دنیا کے سامنے
اپنی 16 ویں سالگرہ پر ملالہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ میں وہ لکھتی ہے:’’اقوام متحدہ کے بڑے ہال میں کھڑے ہونا اور تقریر کرنا ایک ہراساں کر دینے والا تجربہ تھا لیکن میں جانتی تھی کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ میرے سامنے صرف چار سو لوگ بیٹھے تھے لیکن جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو یہ تصور کیا کہ میرے سامنے پوری دنیا کے کئی ملین انسان موجود ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
جدوجہد کا اعتراف انعام کی صورت میں
سخاروف پرائز اُن بہت سے اعزازات میں سے تازہ ترین ہے، جن سے ملالہ کو گزرے مہینوں میں نوازا گیا ہے۔ ابھی اکتوبر کے اوائل میں اس لڑکی کو حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم برطانوی تنظیم "RAW in War" کا آنا پولٹ کوفسکایا انعام دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُسے ’ضمیر کی پیامبر‘ کا خطاب دیا۔
تصویر: Reuters
مستقبل کے بڑے منصوبے
ملالہ کی خواہش ہے کہ وہ ایک روز واپس اپنے وطن پاکستان جائے۔ پاکستان میں ملالہ سیاست میں جانا چاہتی ہے اور ہو سکے تو وزیر اعظم بننا چاہتی ہے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار ملالہ نےاپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
نوبل پیس پرائز کمیٹی نے مراتوف کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ''روس میں نووایا گازیٹا آج کے دور کا آزاد ترین جریدہ ہے، جس کا حکمرانوں کے بارے میں بنیادی رویہ انتہائی تنقیدی ہے۔‘‘
نوبل پیس کمیٹی کی سربراہ بیرِٹ رائس اینڈرسن کے الفاظ میں، ''اس اخبار کی طرف سے حقائق کی بنیاد پر کی جانے والی صحافت اور دیمیتری مراتوف کی پیشہ وارانہ ایمانداری نے اس جریدے کو روسی معاشرے کے ان قابل اعتراض پہلوؤں کے بارے میں درست معلومات کے حصول کا بہت اہم ذریعہ بنا دیا ہے، جن کا روس کے دیگر ذرائع ابلاغ میں کوئی ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔‘‘
کریملن کے ترجمان کی طرف سے بھی تعریف
دیمیتری مراتوف اور ان کا اخبار اگرچہ روسی حکمرانوں پر کھل کر اور شواہد کے ساتھ تنقید کرتے ہیں، تاہم مراتوف کو نوبل انعام دینے کے فیصلے کے بعد خود کریملن حکام بھی خاموش نہ رہ سکے۔
نوبل امن انعام حاصل کرنے والی شخصیات اور ادارے
امن کا نوبل انعام سن 1901ء سے ہر سال 10 دسمبر کو باقاعدہ طور پر دیا جاتا ہے۔ اب تک 101 افراد اور 24 اداروں کو اس اعلیٰ اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ ان میں سے چند کی تفصیلات یہاں دی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
:2013 کیمیائی ہتھیاروں کے بغیر پر امن دنیا
سال 2013ء کے لیے امن کا نوبل انعام کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے ’آرگنائزیشن فار پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز‘ OPCW کو دیا گیا ہے۔ یہ ادارہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق 1997ء میں منظور ہونے والے عالمی کنونشن کے تحت دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کی صورتحال پر نظر رکھتا ہے۔ رواں برس اکتوبر میں اس ادارے کو شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا کام سونپا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
:2012 یورپی یونین
سال 2012ء کا نوبل انعام ’چھ دہائیوں سے بھی زائد عرصے سے یورپ میں ترقی، امن، مصالحت، جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینے پر‘ یورپی یونین کو دیا گیا تھا۔ یورپی پارلیمنٹ کے اسپیکر مارٹن شُلز نے اس اعزاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یورپی یونین دراصل مصالحت ہی کا نام ہے۔ یورپی یونین ایسا منفرد پراجیکٹ ہے جس نے جنگ کو امن میں اور نفرت کو یکجہتی میں بدل دیا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
:2011 توکل کرمان، ایلن جانسن اور لائما گبووی
سال 2011ء کے لیے نوبل انعام برائے امن لائبیریا اور یمن سے تعلق رکھنے والی تین خواتین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں لائبیریا کی خاتون صدر ایلن جانسن سرلیف Ellen Johnson-Sirleaf اور لائبیریا ہی کی امن کے لیے سرگرم خاتون شہری لائما گبووی Leymah Gbowee کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لیے مثالی کوششیں کرنے والی یمنی خاتون توکل کرمان شامل تھیں۔
تصویر: dapd
2010: لیو ژیاؤبو
چینی مصنف لیو ژیاؤبو کو سال 2010 کا نوبل انعام برائے امن دیا گیا تھا۔ جمہوریت نواز ژیاؤبو اس وقت چین میں 11 برس قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
2009: باراک اوباما
امریکی صدر باراک اوباما کو امن کا نوبل انعام دسمبر 2009 میں اس وقت دیا گیا، جب انہیں عہدہ صدارت سنبھالے ابھی ایک برس بھی نہیں ہوا تھا۔ بعض نقادوں کی طرف سے اس پر تنقید بھی کی گئی کہ انہیں ایسے اقدامات کے لیے یہ انعام پیشگی طور پر دے دیا گیا، جو انہیں ابھی کرنا تھے۔
تصویر: AP
2008 مارتی اَہتِساری
فن لینڈ کے سیاستدان اور 1994ء سے 2000ء تک ملک کے صدر رہنے والے مارتی اہتساری کو عالمی سطح پر سفارت کاری اور مصالحت کاری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ نوبل کمیٹی نے ’’مختلف براعظموں میں تین دہائیوں سے بھی زائد عرصے تک بین الاقوامی تنازعات کو حل کرانے کے سلسلے میں ان کی کوششوں پر‘‘ انہیں 2008ء کا نوبل انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
2007: ایل گور
سابق امریکی نائب صدر ایل گور اور ’انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘ کے چیئرمین ڈاکٹر راجندر کے پاچوری کومشترکہ طور پر سال 2007 کا نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ انہیں یہ اعزاز تحفظ ماحول کے لیے ان کی کوششوں کے صلے میں ملا تھا۔
تصویر: AP
2006: محمد یونس
سال 2006ء کے نوبل انعام برائے امن سے معروف بنگلہ دیشی ماہر معاشیات اور ’غربا کے بینکر‘ محمد یونس اور ان کے قائم کردہ ’گرامین بینک‘ کو نوازا گیا۔ ان کے بینک نے کئی ملین غریب افراد کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے دیے، جن سے ان کا معیار زندگی بہتر ہوا۔
تصویر: AP
2005: IAEA
2005ء کا نوبل امن انعام جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA کو دیا گیا تھا۔ اس ادارے کو یہ اعزاز جوہری توانائی کو فوجی مقاصد کے استعمال سے روکنے کے لیے اس کے کردار کو سراہتے ہوئے دیا گیا۔ اُس وقت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ، مصر سے تعلق رکھنے والے محمد البرادعی نے یہ اعزاز وصول کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
2004: ونگاری ماتھائے
ونگاری ماتھائے پہلی افریقی خاتون ہیں، جنہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ کینیا کی پروفیسر اور سائنسدان ماتھائے کو یہ انعام پائیدار ترقی، جمہوریت اور امن کے لیے ان کی کوششوں پر دیا گیا، جو انہوں نے اپنی ’گرین بیلٹ موومنٹ‘ نامی تنظیم کے ذریعے کیں۔ یہ تنظیم 1977 میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھی۔ ماتھائے کا انتقال 25 ستمبر 2011 کو ہوا۔
تصویر: AP
2003: شیریں عبادی
ایرانی وکیل شیریں عبادی پہلی مسلمان اور ایرانی خاتون ہیں جنہیں نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ عبادی کو اس اعزاز سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے علاوہ امن کے لیے ان کی غیر معمولی کوششوں پر نوازا گیا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
2001: کوفی عنان اور اقوام متحدہ
بارہ سال قبل امن کا نوبل انعام اقوام متحدہ کے اداروں کو دیا گیا۔ جنرل اسمبلی کے صدر اس وقت جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ ہان سیونگ سُو تھے جبکہ اقوام متحدہ کی سربراہی اس وقت سکریٹری جنرل کوفی عنان کے ہاتھوں میں تھی۔
تصویر: AP
1994: عرفات، پیریز اور رابین
1993ء میں پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے ان فریقین کے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی صورت میں نکلا۔ 1994ء میں یاسر عرفات کو اسرائیلی وزیر اعظم یٹساک رابین اور وزیر خارجہ شیمعون پیریز کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
1993: منڈیلا، ڈی کلارک
جنوبی افریقہ کے صدر کی حیثیت سے فریڈرک ڈی کلارک نے ملک میں جاری نسلی امتیاز پر مبنی قوانین ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نسلی امتیاز کے دور میں افریقی نیشنل کانگریس نامی پارٹی کے سربراہ نیلسن منڈیلا نے 27 برس جیل میں گزارے۔ ان دونوں افراد کو جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششوں کے لیے نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP
1991: اونگ سان سوچی
اونگ سان سوچی 1980ء کی دہائی کے آخر سے اپنے وطن میانمار یا سابقہ برما میں جمہوریت کے لیے پرامن جدوجہد کر رہی ہیں۔ سوچی کو 1991ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: Getty Images
15 تصاویر1 | 15
روس میں اقتدار کا مرکز ماسکو میں کریملن ہے، جہاں صدر ولادیمیر پوٹن کا سرکاری دفتر ہے۔ آج جمعے کے روز اوسلو میں کیے جانے والے اعلان کے بعد کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے اپنے ہم وطن مراتوف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ''وہ ایک باصلاحیت اور بہادر انسان ہیں۔‘‘
پیسکوف نے ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کہا، ''ہم دیمیتری مراتوف کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آئیڈیلز کے تحت بڑی مستقل مزاجی سے کام کیا ہے۔ ایک باصلاحیت اور بہادر انسان، یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور ہم انہیں مبارک دیتے ہیں۔‘‘
ماریا ریسا اور دیمیتری مراتوف دونوں کو نوبل امن انعام کے طور پر گولڈ میڈلز دیے جانے کے علاوہ مشترکہ طور پر 10 ملین سویڈش کرونا یا 1.14 ملین ڈالر کے برابر نقد رقم بھی دی جائے گی۔
اس سال نوبل پرائز جیتنے والی شخصیات کو یہ اعزازات دسمبر میں منعقد ہونے والی ایک تقریب تقسیم انعامات میں دیے جائیں گے۔
م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
نوبل انعام حاصل کرنے والی متنازعہ شخصیات
1901ء سے جب سے نوبل انعام دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مختلف حلقے اس بارے میں ایک دوسرے سے بالکل الگ موقف رکھتے ہیں۔ نوبل تاریخ کی اب تک کی متنازعہ ترین لمحات کی تصاویر۔
تصویر: AP
کھاد بھی اور کیمیائی ہتھیار بھی
نوبل انعام کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اختلافی فیصلہ جرمن کیمیا دان فرٹز ہابر کو نوبل انعام سے نوازنہ تھا۔ انہیں 1918ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے امونیا کا ایسا مرکب ایجاد کیا، جسے کھاد بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہابر کو’’ کیمیائی ہتیھاروں کا خالق‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ ان کی ایجاد کردہ کلورین گیس پہلی عالمی جنگ میں بڑی تباہی کا باعث بنی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہلاکت خیز ایجاد
جرمن سائسندان اوٹو ہان (درمیان میں) کو جوہری انشقاق کی دریافت پر 1945ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے اپنی اس ایجاد کو عسکری شعبے میں استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیق نہیں کی تھی تاہم اسے براہ راست جوہری بم بنانے میں استعمال کیا گیا۔ نوبل کمیٹی انہیں 1940ء میں نوبل انعام دینا چاہتی تھی لیکن انہیں ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیے جانے والے حملوں کے بعد 1945ء میں یہ اعزاز دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/G. Rauchwetter
ایک ایجاد پر پابندی
سوئس محقق پاؤل مؤلر کو 1948ء میں ’ڈی ڈی ٹی‘ بنانے پر طب کو نوبل انعام دیا گیا۔ ’ڈی ڈی ٹی‘ کیڑے مار دوا ہے، جو ملریا جیسی دیگر بیماریوں پر قابو پانے میں قدرے مددگار ثابت ہوئی۔ اس نے دوسری عالمی جنگ اور بعد کے دور میں بہت لوگوں کی جان بچائی لیکن تحفظ ماحول کی تنظیموں کا خیال ہے کہ یہ ایجاد انسانی صحت اور جنگلی حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے بعد ڈی ڈی ٹی کے زرعی استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UN
پریشان کن ایوارڈ
جرمن امن پسند کارل فان اوسیتزکی کو اسلحہ سازی کےخفیہ جرمن منصوبے کو فاش کرنے پر 1935ء میں امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ کارل فان اوسیتزکی کو غداری کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ ہٹلر نے نوبل کمیٹی پر جرمن معاملات میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا۔
تصویر: Bundesarchiv 183-R70579
شدید تنقید اور احتجاجاً استعفے
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنگر اور شمالی ویتنام کے رہنما ’لے ڈک تھو‘ کو امن کا نوبل انعام دینے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 1973ء کے اس فیصلے پر نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ ان دنوں کو فائر بندی کی کوششوں پر یہ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ تھو نے تو اسے لینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسنگر کے ایک نمائندے نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اس فیصلے کے بعد بھی جنگ مزید دو سال جاری رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آزاد خیال اور آمر سے روابط
آزاد منڈیوں کی وکالت کرنے والے ملٹن فریڈمین کو معاشیات کا نوبل انعام دینے کو متنازعہ ترین فیصلوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فریڈمین کے چلی کے آمر آگستو پینوشے کے ساتھ روابط کی وجہ سے دنیا بھر میں بائیں بازو کے حلقوں نے 1976ء کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی نظریات سے متاثر ہو کر چلی کی حکومت نے لوگوں پر تشدد شروع کیا اور کئی ہزار افراد لاپتہ ہو گئے۔
تصویر: PD
مبہم امن انعام
1994ء میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور وزیر خارجہ شیمون پیریز کو مشترکہ طور پر امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس کا مقصد مشرقی وسطٰی امن منصوبے میں تیزی لانا تھا۔ تاہم اس سے بات چیت کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑا اور ایک سال بعد ایک اسرائیلی قوم پرست نے رابن کو قتل کر دیا۔ نوبل کمیٹی کے ایک رکن نے یاسر عرفات کو’ دہشت گرد‘ کہتے ہوئے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
تصویر: Jamal Aruri/AFP/Getty Images
فرضی یادداشت اور نوبل انعام
قدیم مایا نسل کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ریگوبیرتا مینچُونے 1992ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ انہیں سماجی انصاف اور نسلی و ثقافتی مفاہمت کے لیے ان کی کوششوں پر اس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ تاہم یہ فیصلہ اس وقت کافی متنازعہ ثابت ہوا، جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ شائع ہونے والی ان کی یادداشت جزوی طور پر فرضی ہے۔ بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اس ایوارڈ کی بالکل بھی حقدار نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
قبل از وقت امتیاز
امریکی صدر باراک اوباما کو 2009ء میں ملنے والے امن کے نوبل انعام نے بہت سے حلقوں کو حیران کر دیا تھا اور حیران ہونے والوں میں اوباما خود بھی شامل تھے۔ انہیں بین الاقوامی سفارت کاری اور اقوام کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کے ان کے ارادوں پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ناقدین اور اوباما کے حامیوں کا موقف تھا کہ انہیں یہ ایوارڈ اس وقت دینا چاہیے تھا کہ جب ان کے منصوبوں کے نتائج سامنے آتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بعد از مرگ اعتراف
2011ء میں طب کا نوبل انعام جولیس ہوف، بروس بؤٹلر اور رالف اشٹائن مین کو نئے’ امیون سسٹم سیل‘ کی دریافت پر مشترکہ طور پر نوبل انعام برائے طب دیا گیا۔ اعلان سے چند دن قبل اشٹائن مین کا سرطان کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ قانون کے مطابق بعد از مرگ کوئی بھی نوبل انعام وصول نہیں کرسکتا۔ تاہم نوبل کمیٹی یہ کہتے ہوئے اشٹائن مین کے حق میں فیصلہ کیا کہ نامزدگی کے وقت انہیں اس سائنسدان کی موت علم نہیں تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rockefeller University
ایک بڑی غفلت
نوبل انعام اپنی نامزدگیوں اور اصل حقداروں کو نظر انداز کیے جانے کے حوالوں سے متنازعہ رہے ہیں۔ بھارت میں پر امن تحریک کے بانی گاندھی کو پانچ مرتبہ اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا مگر ایک مرتبہ بھی فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا۔ 2006ء میں ناروے کی نوبل کمیٹی کے گیئر لنڈےسٹاڈ نے کہا ’’ نوبل انعام کی 106 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کو امن کا نوبل انعام نہیں دیا گیا۔‘‘