امن کے حصول میں اربوں ڈالر اسرائیل اور فلسطین کے منتظر
8 جون 2015امریکا کی غیر منافع بخش ریسرچ آرگنائزیشن رینڈ کارپوریشن نے اسرائیل اور فلسطین میں امن یا مسلح تشدد کی مناسبت سے ایک تحقیقی پراجیکٹ کو مکمل کر کے اُس کے نتائج جاری کیے ہیں۔ اِس پراجیکٹ کے لیے دو سو کے قریب امریکی اہلکاروں سمیت خطے کے اہم افراد کے انٹرویوز کے حصول کا سلسلہ گزشتہ دو برسوں تک جاری رکھا گیا۔ اِس رپورٹ کے کئی اہم نکات ہیں لیکن مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اگر امن کے راستے کا انتخاب کیا جاتا ہے تو اسرائیل اور فلسطینیوں کو اربوں ڈالر کی امداد مل سکتی ہے اور اگر وہ مسلح تشدد کی راہ کا انتخاب کرتے ہیں تو اِن دونوں اقوام کو ناقابلِ تلافی اقتصادی نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ریسرچ کے مطابق امن قائم کرنے کی صورت میں اگلی ایک دہائی میں اسرائیل کو عالمی برادری سے 120 ارب ڈالر کا فائدہ ممکن ہے اور اِسی طرح فلسطینیوں کو 50 ارب ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ اُن کی سالانہ فی کس آمدنی میں 36 فیصد کے اضافے کا سبب بن سکے گا۔ دوسری صورت میں اگر امن کا قیام ممکن نہیں ہوتا اور تشدد کی راہ اپنائی جاتی ہے تو اسرائیلی اقتصادیات کو تقریباً 250 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کے لیے بھی نقصان کا اندازہ بہت زیادہ ہے اور اُن کی فی کس آمدنی میں 46 فیصد کی کمی واقع ہو گی۔
رینڈ کارپوریشن نے نتائج مرتب کرتے ہوئے واضح کیا کہ امن کی راہ اپنانے کے اقتصادی فوائد بے پناہ ہیں۔ ریسرچ ادارے کا یہ کہنا ہے کہ اُسے یقین ہے کہ اِس ریسرچ کے نتائج سے اسرائیلی اور فلسطینی قائدین فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ رپورٹ کے شریک سربراہ سی راس انتھونی کا کہنا ہے کہ اِس ریسرچ سے حاصل ہونے والے رحجانات اور نتائج موجودہ جنگی حالات کو تناظر میں انٹرنیشنل کمیونٹی کے لیے انتہائی مفید ہو سکتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق فوری طور پر اسرائیل کو موجودہ حالات کے تسلسل کے باعث 80 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے اور فلسطینی تقریباً 12 ارب ڈالر سے محروم ہو سکتے ہیں۔
رینڈ کارپوریشن نے اسرائیل اور فلسطین اِنیشیئیٹیو (Israeli-Palestinian Initiative) نامی رپورٹ کو پانچ مختلف پہلووں سے مرتب کیا ہے۔ اِس میں دو ریاستی حل، منظم انداز میں یک طرفہ انخلا، غیر منظم انداز میں یک طرفہ انخلا، غیر مسلح مزاحمتی عمل اور پرتششد تحریک کا آغاز جیسے پہلو شامل ہیں۔ رینڈ کارپوریشن کے محققین نے ریسرچ مکمل کرنے کے بعد اب اسرائیل اور فلسطینی علاقے کے دورے کو پلان کر رکھا ہے۔ اِس دورے میں وہ اپنی ریسرچ کو اسرائیلی حکومت اور اہم سیاستدانوں کے سامنے پیش کریں گے تا کہ وہ امن کے حصول کی راہ اپنانے کی صورت میں مالی منفعت کا احساس کر سکیں۔ اسی طرح وہ فلسطینی لیڈرشپ سے بھی ملاقاتیں کر کے رپورٹ پر تبادلہ خیال کریں گے۔