امپیریل ریاست کی تشکیل
24 اکتوبر 2025
تاریخ میں دو قسم کی ریاستیں رہی ہیں ایک وہ ریاست جو اپنی ذراعتی اور صنعتی ترقی کی وجہ سے سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہوئی اور اپنے ذرائع پر بھروسہ کرتے ہوئے علم و ادب اور آرٹ کے شعبوں میں ترقی کی۔ ایسی ریاستیں یا تو قومی ہوتی ہیں یا نظریاتی۔ ان کی یہی اندرونی طاقت ان کے اداروں کو مضبوط بناتی ہے، جن میں فوج، سیاسی عہدیدار اور حکمران طبقہ۔ ان کی اندرونی طاقت ان کو سیاسی برتری کا احساس دلاتی ہے اور اس میں یہ خواہشات پیدا کرتی ہے کہ اپنی جغرافیائی حدود کو ختم کر کے وسیع وعریض امپیریل ریاست کو قائم کریں۔
امپیریل ریاست کی بنیاد مقبوضہ ملکوں کی مال و دولت اور ان کے پیداواری وسائل پر ہوتی ہے۔ اس میں ریاست اپنے موجودہ وسائل کو بہت کم استعمال کرتی ہے۔ لہذا ریاست کی یہ دو شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ پہلی وہ شکل جس کا انحصار اندرونی ذرائع پر ہوتا ہے۔ دوسری وہ وسیع ریاست جس میں کئی ریاستوں کی مالیت شامل ہوتی ہے اور وہ ان کے ذرائع پر ہی قائم رہتی ہے۔
اس موضوع پر ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر تھوماس بارفیلڈ Thomas J. Barfield نے اپنی کتاب "Shadow Empire" میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ "Shadow Empire" ایک وسیع اور پھیلی ہوئی تو ہے لیکن اس کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں کیونکہ ایک امپیریل ریاست میں مفتوحہ قوموں کو طاقت کے ذریعے شامل کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں ان کی تاریخ،سخاوت، بولی جانے والی زبان اور ان کی نسلی شناخت کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے دو نتائج نکلتے ہیں۔ ایک مفتوحہ قوم اپنی آزادی کے لیے مزاحمت کرتی ہے اور غیر ملکی اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس صورت میں امپیریل ریاست کی حکومت کو مسلسل بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قتل و غارت گری اور خونریزی ہوتی ہے۔ اگرچہ اسے طاقت کے ذریعے دبا دیا تو جاتا ہے مگر سیاسی استحکام مضبوط نہیں رہتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ امپیریل ریاست مقامی لوگوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ ان کو سہولتیں باہم پہنچاتی ہے اور ایک اشرافیہ کا طبقہ پیدا کرتی ہے جس کو خطابات اور جاگیریں دے کر اپنا ہم نوا بناتی ہے۔
امپیریل ریاست کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نسلی اور قومی امتیازات ختم ہو جاتے ہیں اور عوام اس کی رعایا بن جاتے ہیں۔ اس کی تشکیل میں اس وقت تبدیلی آتی ہے جب ایک امپیریل ریاست اپنے عروج کے بعد زوال پذیر ہوتی ہے۔ جب اس کا زوال ہوتا ہے تو یہ یا تو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ جاتی ہے اور یا اس کے پورے وجود ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اس کی مثال ہم رومن ایمپائر سے دیتے ہیں۔ مسلسل فتوحات کے ذریعے یہ مشرق اور مغرب میں پھیل گئی تھی۔ لیکن جب اس کا زوال ہوا اور اس کے نتیجے میں فیوڈل ریاستیں وجود میں آئیں تو رومن ایمپائر کا کلچر سخاوت اور اس کی سیاسی میراث کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ فارمولا تقریباً تمام امپیریل ریاستوں پر لاگو ہوتا ہے۔ عرب امپیرل ازم جب ختم ہوا ہے تو خود مختار عرب ریاستیں مشرق اور مغرب میں وجود میں آئیں۔
دوسری مثال مغل ایمپائر کی ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں مغل امپیریل ریاست نے چھوٹی مقامی ریاستوں پر حملے کر کے انہیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ لیکن جب اٹھارہویں صدی میں اس کا زوال ہوا ہے۔ تو ہندوستان مغل امپیریل ریاست سے دوبارہ مقامی ریاستوں میں تبدیل ہو گیا۔
اس کی تیسری مثال عثمانی خلافت کی ہے۔ جس میں مشرقی یورپ کے ممالک اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک شامل تھے۔ پہلی عالمی جنگ میں جب عثمانی سلطنت کو شکست ہوئی تو اس کی ریاست کئی سیاسی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اس موقع پر مصطفیٰ کمال اتا ترک نے عثمانیہ خلافت کی امپیریل ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ اور ترکی کی سرحدوں کو سمیٹ کر اس کے علاقے کا تعین کر دیا۔ مصطفیٰ کمال نے ترکی کو قومی ریاست بنا کر اس کی شناخت کو مضبوط کیا جس کی وجہ سے اس کا نیا وجود قائم رہا۔
موجودہ دورمیں یورپی ملکوں نے اپنے کالونیل ازم کی مدد سے نئی امپیریل ریاستوں کی بنیاد ڈالی۔ انگلستان اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگر اس کے حکمران طبقے نے تاجرانہ سرگرمیوں سے اور سیاسی نظریے کے تحت اپنی بحریہ اور فوج کو مضبوط کیا۔ اور ان کی مدد سے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیز بنائیں۔ ان کالونیز سے اسے جو مالی وسائل ملے ان کی مدد سے اس نے وسیع و عریض برطانوی امپیریل ریاست کو قائم کیا۔
فرانس نے بھی اپنے ذرائع کے علاوہ کالونیز کی آمدنی کو استعمال کرتے ہوئے ایشیاء اور افریقہ میں اپنا اقتدار قائم کیا۔ اسی اصول کو اسپین نے لاطینی امریکہ میں اور ہالینڈ نے انڈونیشیا میں استعمال کیا۔ جب دوسری عالمی جنگ کے بعد ایشیا اور افریقہ کی کالونیز میں آزادی کی تحریکیں اٹھیں اور یہ ملک آزاد ہوئے تو امپیریل ریاست کی جگہ قومی ریاست نے لے لی۔
اگرچہ موجودہ زمانے میں قدیم طرز کی امپیریل ریاست تو نہیں ہے مگر اب اس نے نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ امریکہ اور یورپی ملکوں کا اقتدار ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر معیشت کی شکل میں جاری ہے۔ ان ملکوں کی اشرافیہ امریکی اور یورپی تسلط کے حاشیہ بردار ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ تبدیل ہوتے ہوئے نظریات اور حالات کے بارے میں وضاحت تو کرتا ہے مگر ان کو سمجھنے کے لیے سنجیدگی سے غور و خوص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔